نئے پاکستان کی ابتداء کیلئے نیا نظام چاہیے

اگر ہم پاکستان کو تبدیل کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں فی الفور پاکستان کے نظام انصاف کو بدلنا ہو گا۔ پاکستان میں مروج انصاف کا نظام معاشرے میں بددلی پھیلا رہا ہے اور یہ تبدیلی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ اس نظام میں طاقتور سزا سے بچ نکلتے ہیں اور انصاف کے حصول میں سالوں لگ جاتے ہیں مگر پھر بھی انصاف نہیں ملتا۔ انگریزی کی مشہور کہاوت ہے کہ دیر سے انصاف کی فراہمی انصاف سے انکار کے مترادف ہے۔ پاکستان میں عام مقدمات سے لے کر قتل تک کے مقدمات میں غیر ضروری تاخیر ہوتی ہے اور پیچیدہ مراحل سے گزرنا پڑتا ہے ۔ انصاف کا نظام اس قدر مضحکہ خیز ہے کہ مظلوم اور متاثرہ فریق کو بھی ملزم کو بھی سزا دلوانے کے لیے پوری دوڑ دھوپ کرنا پڑتی ہے تب جا کر نظام انصاف حرکت میں آنے کی صورت بنتی ہے۔ ضروری نہیں کہ آپ کو پھر بھی انصاف مل جائے۔ برسوں قبل ہمارے علاقے سے ایک معصوم بچہ اغوا ہوا جس کو تاوان کی رقم وصول کرنے کے باوجود قتل کر دیا گیا۔ تاوان کی رقم لے کر جانے والا بھی قتل کر دیا گیا جس کا عینی گواہ ساتھ جانے والے شخص تھا۔ اس معصوم بچے ولید کا باپ مجھے آٹھ سال بعد ملا تو کہنے لگا کہ اپنے بچے کے قاتل کو پھانسی کی سزا دلوانے کی تگ و دو میں 18 لاکھ روپے لگا چکا ہوں لیکن افسوس یہ ہے کہ اس کا مقدمہ ابھی تک عدالت عظمیٰ میں لٹکا ہوا ہے ۔ بعد ازاں پتہ چلا کہ ولید کے باپ کا انتقال ہو گیا اور اس کی موت کے بعد کیس کی پیروی کرنے والا کوئی نہ رہا تو ولید کے قاتل کی ضمانت ہو گئی ۔ یہ ہے ہمارا نظام انصاف
ہمارا نظام انصاف نو آبادیاتی نظام کا تحفہ ہے جسے ہم نے سینے سے لگا رکھا ہے ۔ وقت آ گیا ہے کہ اس گلے سڑے نظام کی جگہ ایک آسان فہم اور سادہ طریقے پر استوار نظام انصاف متعارف کروایا جائے جو سرعت کے ساتھ عام آدمی کو اس کی دہلیز پر انصاف فراہم کر سکے۔ پرانے نظام کی خامیوں کو سامنے رکھتے ہوئے جو نیا نظام انصاف تشکیل دینے کی سعی کی جائے اس کی تیاری میں پرانے نظام کے ذہنی طور پر قیدی اور پروردہ حاضر یا ریٹائرڈ لوگوں کو دور رکھا جائے۔ ان کی بجائے ایسے وسیع النظر اور وسیع الذہن افراد کی خدمات حاصل کی جائیں جنہیں اسلام کے نظام انصاف کی روح سے مکمل آگاہی ہو اور وہ مقامی روایات کو ملحوظ رکھتے ہوئے اور سماج کی نفسیات کو سمجھتے ہوئے نظام انصاف کا ایک اچھا خاکہ تیار کر سکیں۔ قدیم اور عصر حاضر کے نظام عدل کا حاصل مطالعہ ہے کہ انصاف فوری ہو اور انصاف ہوتا دکھائی دے۔ نوآبادیاتی نظام کے تمام قوانین خواہ وہ ضابطہ فوجداری یا تعزیرات کے مجموعوں پر مشتمل ہوں وہ فوری انصاف کی راہ میں حائل ان تمام قوانین کو مکمل طور پر تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ ججز کے کوڈ آف کنڈکٹ اور اعلیٰ عدالتوں میں ججز کی بھرتی کے طریقہ کار کو بھی تبدیل کیے بغیر کچھ بدلنے والا نہیں ہے۔ جوڈیشل پالیسی بھی از سر نو تشکیل پانی چاہیے۔ میرے نزدیک نئے نظام انصاف کی چند نمایاں خصوصیات درج ذیل ہونی چاہئیں۔
١۔ نئے نظام انصاف میں زیادہ تر مقدمات میں فیصلے ”ایک پیشی” پر ہونے ضروری ہیں۔
٢۔ پیشہ ور وکیلوں پر انحصار کی بجائے سادہ اور آسان طریقہ کار اپنا کر ”ذاتی وکالت” ترجیح ہونی چاہیے۔
٣۔ ماڈل کورٹس میں جو تجربہ کیا گیا ہے اس کو سامنے رکھتے ہوئے مقدمات کی بلاناغہ روزانہ سماعت کی جانی چاہیے۔
٤۔ آئینی مقدمات کے لیے الگ عدالتیں قائم کی جائیں۔
٥۔ دیگر شعبوں کی طرح ججز کی ترقی درجہ بہ درجہ امتحان پاس کرنے کے بعد ہونی چاہیے۔
٦۔ اعلیٰ عدالتوں میں ججز نیچے سے ترقی کرتے ہوئے اوپر پہنچیں، ڈائریکٹ تقرری کا کوٹہ دس پندرہ فیصد سے زائد نہیں ہونا چاہیے۔
٧۔ پولیس کو فعال ، ذمہ دار اور قابلِ احتساب بنانے کے لیے نیا پولیس ایکٹ نافذ کیا جائے جس میں انوسٹی گیشن ، پراسیکیوشن اور پولیس کے احتساب کا فعال میکنزم موجود ہو۔
٨۔ نچلی ترین سطح یعنی یونین کونسل لیول پر ججز کا تقرر کیا جائے۔
میں نے یہ چند نکات اس لیے تحریر کیے ہیں تاکہ نئے نظامِ انصاف کی خصوصیات کے حوالے سے بحث کا آغاز ہو سکے۔ ہمارا مروجہ نظام تو انصاف کے نام پر ایک دھبہ ہے۔ وقت آ چکا ہے کہ اس فرسودہ اور گلے سڑے نظام سے چھٹکارا حاصل کیا جائے اور اس کی جگہ ایک فعال اور آسان طریقے پر استوار انصاف کا نظام متعارف کروایا جائے۔ اگر انصاف کا نظام درست ہو جاتا ہے تو ہمارے معاشرے کی اکثر خرابیاں ختم ہو جائیں گی۔ جیسے کسی کا کردار صرف ایک خوبی سچ بولنے سے ٹھیک ہو جاتا ہے ایسے ہی قوموں کا کردار انصاف کی فراہمی کا مرہون منت ہوتا ہے۔ کوئی قوم مہذب معاشرے کی تشکیل نہیں کر سکتی جب تک اس میں قانون کی حکمرانی نہ ہو۔ قانون کی حکمرانی ہمارے معاشرے میں اس لیے خواب بن کر رہ گئی ہے کیونکہ یہاں لوگوں کو انصاف کے حصول کے لیے ذلیل و خوار ہونا پڑتا ہے۔ لوگوں کو فوری انصاف ملے تو بدمعاشوں ، چور اچکوں ، رسہ گیروں ، ٹھگوں ، قبضہ گروپوں ، قاتلوں، فراڈیوں اور بدعنوانوں کا معاشرے سے خاتمہ ہو جائے گا۔ اس کے لیے قوانین، پیچیدہ طریقے اور مروجہ ضابطوں سمیت بہت کچھ تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ وزیر اعظم عمران خان اپنے دور حکومت میں یہ کام کر گئے تو ایک نئے پاکستان کی ابتدا ہو گی۔ درحقیقت یہی وہ نیا پاکستان ہو گا جس کا خواب تحریک انصاف نے پاکستانی عوام کو دکھایا اور جس کی تعبیر پانے کے لیے وزیر اعظم عمران خان نے تحریک انصاف کے نام سے اپنی جماعت بنائی اور22 سال جدوجہد کی ۔ آج اس خواب کی تعبیر پانے اور پاکستانی قوم کی تقدیر بدلنے کا موقع قدرت نے عمران خان کو دے دیا ہے، اب یہ ان پر منحصر ہے کہ وہ اس کار ِ عظیم کی انجام دہی کے لیے کیا کرتے ہیں۔

مزید پڑھیں:  الٹے بانس بریلی کو ؟