آدمیوں کے چنگل میں جی رہے ہیں ہم

بہت محنت کی گئی ہے اس سماج کو ”یہاں تک” لانے کے لئے ویسے اب خطرے والی کوئی بات نہیں ”سب کو سب” ہی سے خطرہ ہے یہ بجا ہے کہ اس ساری صورتحال کے ذمہ داروں میں ریاست بھی شامل ہے لیکن یہ کہنا کہ تنہا ریاست شامل ہے ۔ درست بات نہیں جب بھی بات شروع ہو گی قرارداد مقاصد سے بات کرنا پڑے گی۔ چلیں یہ 1971ء سے پہلے کے پاکستان کی بات ہے ہم اور آپ1971ء کے بعد والے پاکستان میں زندہ ہیں۔سانحہ سیالکوٹ کے بعد عمومی رد عمل امید افزاء ہے مگر کیا سوشل میڈیا پر آنے والا رد عمل سماج میں کسی تبدیلی کا دروازہ کھول سکے گا؟ ایک شخص اپنا مادر وطن چھوڑ کر سیالکوٹ کی فیکٹری میں ملازمت اس لئے کر رہا تھا کہ اس شہر کے صنعت کاروں نے پچھلے چند برسوں سے اپنی فیکٹریوں کو سری لنکا اور بنگلہ دیش کی انڈسٹریز کی طرز پر جدید بنانے کے لئے جتن شروع کر دیئے تھے ۔ اکثر مالکان نے بیرونی ماہرین کی خدمات حاصل کیں۔ نتھا کمارا 2011ء سے اس فیکٹری سے منسلک ہے پروڈکشن منیجر کے طور پر انہوں نے نہ صرف فیکٹری کو جدید خطوط پر منظم کیا بلکہ مالکان کے لئے مزید منافع بخش بنا دیا۔ اس کارکردگی کے مظاہرے پر اور باتیں ہوئیں ایک یہ کہ وہ مالکان کے منظور نظر ہوئے تنخواہ اور مراعات دوسروں سے بہتر مل گئیں ۔ دوسرا یہ کہ اپنے کام سے کام رکھنے اور نظم و ضبط کے معاملے میں ان کے مخالفین کا حلقہ وسیع ہوگیا اس میں انتظامی عہدیداروں کے ساتھ ورکرز اور سپروائزر بھی شامل تھے ۔ جمعہ کے رونما ہونے والے اس المناک سانحہ کا جو پس منظر قاتل بتا رہے ہیں وہ درست نہیں۔ بالفرض اگر وہ درست بھی ہو تو کس قانون میں لکھا ہے کہ ہجوم اپنی عدالت لگا کر بیٹھ جائے ؟ تحقیقات کرنے والوں کو فیکٹری کے اس منیجر بارے بھی تحقیقات کرنا ہوں گی جس نے مقامی سپروائزر سے مل کر راستے کا کانٹا نکالنے کے لئے توہین مذہب کا ا لزام اچھالا اورانتظامی دفاتر کو اندر سے بند کروایا تاکہ انتظامی عملے کا کوئی رکن نتھا کمارا کی مدد کو نہ پہنچ سکے ۔
اب آیئے اس بات پر غور کیجئے کہ کیا یہ سانحہ کسی بات کا فوری رد عمل تھا؟ اطلاعات یہ ہیں کہ کھچڑی کافی دنوں سے پک رہی تھی ۔ فیکٹری انتظامیہ کے کچھ لوگ لیبر میں موجود اپنے ہرکاروں کے ذریعے ماحول کو خراب کر رہے تھے کیسے؟ وہ یوں کہ نتھا کمارا سب سے زیادہ زور مشینوں اور ہال کی صفائی پر دیتے تھے پچھلے کچھ عرصہ سے ان کی ہدایات کے برعکس شفٹ کے خاتمے پر مشینوں اور ہال کی صفائی سے غفلت برتی جارہی تھی۔ نتھا کمارا کا صفائی سپروائزر سے یہ کہنا تھا کہ اگر کام اچھی طرح نہیں ہو گا تو مسائل پیدا ہوں گے ۔اصولی طور پر اس مرحلہ پر فیکٹری انتظامیہ کو آگے بڑھ کر معاملے کو دیکھنا چاہئے تھا ۔ لیکن انتظامیہ کے چند بااثر افراد خود سازش میں شریک تھے ۔ شریک نہ ہوتے تو بالائی منزل سے نتھا کمارا کو لیجانے ہی نہ دیتے مگر وہ اپنے کمروں میں دبک گئے اور منصوبے کے مطابق فیکٹری ورکرز کو مشتعل کرنے کی کھلی چھٹی دی گئی۔ یہاں آپ سوچ رہے ہوں گے کہ پولیس کہاں تھی ۔ پولیس کو فیکٹری کے اندر ہنگامے کی اطلاع ملی لگ بھگ بیس منٹ میں چند پولیس اہلکار موقع پر پہنچے انہوں نے صورتحال کودیکھتے ہوئے مزید نفری بھجوانے کی اطلاع دی۔ یہ چند پولیس اہلکار مشتعل ہجوم کو نہیں روک سکتے تھے مان لیتے ہیں کہ انہیں روکنا چاہئے تھا لیکن ان اہلکاروں کے سامنے گزشتہ مہینوں کے چند واقعات تھے جب فرض کی ادائیگی میں ان کے ساتھی قتل ہوئے اور قتل کرنے والوں سے معاہدہ امن کیا گیا ۔ دوسری بات پولیس اہلکار چند تھے اور مشتعل ہجوم سینکڑوں میں۔ یہاں ایک اور بات بھی مد نظر رکھیں فیکٹری کے مزدوروں کو مشتعل کس نے کیا اور جب فیکٹری کے اندر منصوبے کے مطابق ہنگامہ ہو رہا تھا تو نعرے لگاتا ہوا ایک ہجوم فیکٹری کے باہر مین شاہراہ پر کیسے اور کہاں سے آن پہنچا؟ اس سوال کا جواب اگر تحقیقات کرنے والوں کو مل جائے تو ساری گتھی سلجھ جائے گی مان لیجئے کہ جو ہوا وہ کسی بھی طور اچھا نہیں ہوا یہ بھی مان لیجئے کہ یہ سارا معاشرہ اذیت پسند بن چکا ہے ۔ ذہنی حالت دیکھیں۔ مرنے والے پر تشدد اور پھر جلانے کی فخریہ ویڈیوز بنا کر سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کی گئیں سینہ ٹھوک کر بیان دیئے اور تقریریں کی گئیں۔ اس سارے عمل میں اسلام اور پاکستان کو کیا حاصل ہوا؟ معاف کیجئے گا یہاں اسلام اور پاکسان کی فکر کس کو ہے سبھی(ہر طبقہ بزعم خود اسلام اور پاکستان ہے) کو فوری مقبولیت درکار ہے جو ہوا چھا نہیں ہوا ایک بھیانک سیاہ دن ہماری تاریخ کا حصہ بن گیا ۔ سیالکوٹ کے سانحہ نے دو واقعات فوراً یاد دلائے اولاً لاہور ہائیکورٹ کے ایک جج عارف اقبال بھٹی کا سفاکانہ قتل اور دوسرا بہاولپور کے قصبے میں ایک فاترالعقل کو توہین مذہب کے الزام میں تھانے سے نکال کر زندہ جلائے جانے کا واقعہ ۔ قانونی بحث کو توہین مذہب کا رنگ دے کر سلمان تاثیر کوبھی قتل کروایا گیا تھا۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا یہ سلسلہ رک پائے گا؟ کم از کم میرا جواب نفی میں ہے مشال خان کیس کی مثال آپ کے سامنے ہے اس کیس میں کیا ہوا تھا بعض ملزموں کی ایک مرحلہ پر ہائی کی صورت میںفاتح غرناطہ کی طرح کا استقبال ہوا تھا سلمان تاثیر کو قتل کرنے والے پولیس اہلکار کا مزار بن گیا اس سوال پر غور کی ضرورت ہے کہ کیا ریاست اور قانون اپنی ا تھارٹی قائم کر پائیں گے؟ اصولی طور پر کرنی توچاہئے ورنہ سب کچھ جل کر راکھ ہوجائے گا ۔ سانحہ سیالکوٹ کی آزادانہ تحقیقات ‘ قاتلوں اور منصوبہ میں شریک فیکٹری انتظامیہ کے بعض کرداروں کو انجام تک پہنچا کر خود ساختہ عدالتیں لگانے والوں کی حوصلہ شکنی کی جاسکتی ہے معاف کیجئے یہ ملک آدمیوں کا جنگل بن چکا ہے اسے انسانوںکی بستی بنانے میں وقت لگے گا۔

مزید پڑھیں:  فیض آباد دھرنا ، نیا پنڈورہ باکس