باپ کی دعا سے بیٹا اونچے

باپ کی دعا سے بیٹا اونچے رُتبے پر پہنچ گیا

ویب ڈیسک: یہ اُس آدمی کا تذکرہ ہے جس کی روزمرہ کی زندگی عیش و عشرت سے بالکل خالی تھی۔ وہ معاشی تنگی کا شکار رہتا تھا۔ وہ دن میں جو کچھ کماتا اپنے بوڑھے والد کے ہاتھ پر لا کر رکھ دیتا ۔ اُس کا معمول تھا کہ دن میںکام کی تلاش میں نکل جاتا اور جو کچھ بھی آمدنی ہوتی لے کرگھر واپس آتا اور اپنے بوڑھے والد کے سامنے رکھی ہوئی میز پر رکھ دیتا۔ اُس کے خیال کے مطابق اگر وہ خود اپنے ہاتھ سے یہ روپیہ اپنے والد کی طرف بڑھاتا تو اسے لینے کے لیے لامحالہ والد کا ہاتھ بھی آگے بڑھتا۔ اس لیے وہ والد کے ہاتھ کا اپنی طرف بڑھنا اپنے والد کی شان میں گستاخی سمجھتا تھا۔ دراصل وہ یہ سب کچھ اپنے بوڑھے والد کے احترام و اکرام میں کرتا تھا۔ وہ جب بھی والد کے سامنے اپنی آمدنی لا کر رکھتا، والد کی زبان سے یہی دعا نکلتی :
”الہ العالمین! میرے بیٹے کو قرآن سکھلا دے اور اسے قرآن کریم کا عالم بنا دے۔


بیٹے کی عمر کوئی بیس سال ہو چکی تھی۔ وہ رات دن محنت و مشقت کے ذریعے حصولِ رزق کے لیے کوشاں رہتا تھا۔ ایک دن کا واقعہ ہے کہ وہ اپنے کام سے گھر آ رہا تھا کہ اتفاق سے اس کی ملاقات ایک عالم دین سے ہو گئی۔ عالم دین اسی شہر کا رہنے والا تھا۔ شہر کے لوگ فتویٰ کے لیے اُسی عالم کا رخ کرتے تھے کیونکہ اسے علم فتویٰ میں کمال حاصل تھا۔ عالم دین نے نوجوان سے دریافت کیا: ”ان دنوں تم کیا کر رہے ہو؟ ”
نوجوان نے جواب دیا: ”حصولِ رزق کے لیے کوشاں ہوں۔ ”
عالم دین نے فرمایا: ”کیا تم تعلیم و تعلم کے لیے ہفتہ میں ایک دن مجھے دے سکتے ہو؟ ”
نوجوان نے جواب دیا: یقیناً میں ہفتہ میں ایک دن آپ کو دے سکتا ہوں ۔ سچ تو یہ ہے کہ تعلیم و تعلم سے مجھے دلی سکون ملے گا۔

مزید پڑھیں:  عمرہ زائرین کو مقررہ 3 ماہ کے اندر اپنے وطن لوٹنا ہوگا، اعلامیہ جاری


نوجوان نے عالم دین کی خدمت میں ہفتہ میں ایک بار حاضر ہونا شروع کر دیا اور کسبِ فیض حاصل کرنے لگا۔ تھوڑے دن ہی گزرے تھے کہ وہ نوجوان ایک محنتی اور ذہین طالب علم کی شکل میں سامنے آیا۔ ایک عرصہ تک وہ تعلیم حاصل کرتا رہا۔ وہ علم کے حصول کا شیدائی تھا۔ اس کا بیشتر وقت پڑھنے میں گزرتا تھا۔ قرآن کریم سے اسے خصوصی شغف تھا۔ وہ بتدریج علم حاصل کرتا چلا گیا۔ پہلے اس نے بی اے کیا اور پھر ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔ اس کے والد کی دعائیں … اس کے رب نے سن لی تھیں۔ اب اس کی آخری منزل پی ایچ ڈی تھی۔ اس نے اپنے مقالہ کا موضوع سوچنا شروع کیا۔ اسے اپنے والد کی دعا یاد آ گئی کہ اللہ اسے قرآن کا عالم بنا دے۔ پھر اس نے قرآن کریم کی تفسیر کو اپنے مقالہ کے لیے منتخب کیا۔
وقت گزرتے دیر نہیں لگتی۔ وہ دن بھی آ گیا جب اس نے یونیورسٹی کے حکام کو اپنا تھیسز (Thesis)پیش کر دیا۔
طالب علم کیلئے وہ دن بڑا اہم ہوتا ہے جب اس کا حتمی امتحان ہوتا ہے۔ جیوری کے ارکان بیٹھتے ہیں۔ طالب علم گویا کٹہرے میں کھڑا ہے۔ اس سے سوال و جواب ہوتے ہیں، بحث و مباحثہ ہوتا ہے۔ جیوری کے ارکان دوسرے کمرے میں جاتے ہیں اور تھوڑی دیر کے بعد واپس آ کر اپنے فیصلے کا اعلان کرتے ہیں۔


آج اس نوجوان کو بھی اس کی محنت کا صلہ ملنے والا تھا۔ وہ صبح سویرے ہی مکالمے کے ہال میں پہنچ گیا۔ اس کے دوست احباب بھی موجود تھے۔ جیوری کے ارکان تشریف لائے۔ اس نے نظر اُٹھا کر ان کی طرف دیکھا ۔ اس کی حیرت کی انتہا نہ رہی کہ جیوری کے ارکان میں وہ شخصیت بھی شامل تھی جنہوں نے سب سے پہلے اسے علم کے حصول کی طرف توجہ دلائی تھی اور وہ اس کے اولین اساتذہ میں سے تھے۔
جیوری کے ارکان نے اپنی نشستیں سنبھالیں ۔ عموماً طالب علم سے لمبی بحث ہوتی ہے۔ وہ کئی گلاس پانی پی جاتا ہے۔ مگر یہ کیا؟
اس کے استاد اٹھے۔ انہوں نے کوئی سوال جواب کیے بغیر اپنے مایہ ناز شاگرد کا ہاتھ پکڑا اور حاضرین سے مخاطب ہو کر کہا میں شروع دن سے اس نوجوان میں علم کا شوق دیکھ رہا ہوں۔ اس نے بڑی محنت سے قرآن کریم کی تفسیر پر اپنا مقالہ لکھا ہے۔ میں اسے بغیر نقد و نظر پی ایچ ڈی ڈگری دینے کا اعلان کرتا ہوں۔ ہم سب کو اس کی تعظیم و تکریم کرنی چاہیے۔ نوجوان نے اپنے استاد کا فیصلہ سنا تو بے اختیار رو دیا۔ یہ خوشی کے آنسو تھے۔ اللہ رب العزت کے حضور شکرانے اور عجز کے آنسو تھے۔ یہ کوئی معمولی ڈگری نہ تھی۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ اس کامیابی کے پیچھے کس کا ہاتھ تھا؟ یہ اس کے والد گرامی کی دعائیں تھیں جو اس نے بیٹے کیلئے کی تھیں۔استاد نے اپنے شاگرد کی طرف دیکھا… اس کی آنکھیں پُرنم تھیں۔ آپ رو رہے ہیں ۔ وہ بولے: ہم تو آپ کی عزت و تکریم کر رہے ہیں۔ کیا یہ وقت رونے کا ہے؟
نوجوان کہنے لگا: اس وقت مجھے اپنے مرحوم والد کی دعا یاد آ رہی ہے جو وہ بار ہا میرے لیے کرتے تھے۔ وہ دعا یہ تھی:
”الہ العالمین! میرے بیٹے کو قرآن کریم سکھلا دے اور اسے قرآن کریم کا عالم بنادے۔”

مزید پڑھیں:  عمرہ زائرین کو مقررہ 3 ماہ کے اندر اپنے وطن لوٹنا ہوگا، اعلامیہ جاری


نوجوان نے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا کہ اُس نے قرآن کریم کے علم کی بدولت اُسے اس قدر عظیم مقام و مرتبہ پر فائز فرمایا۔ (والدین، اطاعت و نافرمانی، واقعات کی زبانی)