بے برکتی

بے برکتی کے باعث بے چینی

اسلام ہمیں اس بات کی بھی تلقین کرتاہے کہ ہم رزق کے حصول کی جدوجہد میں ساراانحصاراوربھروسہ اپنی محنت اور کمائی ہی پر نہ کریں،بلکہ ہمارا اصل اعتماد اور تو کل اس ذات پر ہونا چاہیے ،جو مسبب الاسباب ہے اور جو ساری مخلوقات کی روزی کا انتظام کرنے والی ہے۔

حضرت عمر بن خطاب سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:اگر تم اللہ پر ویسے توکل کرو جیسا کہ توکل کرنے کاحق ہے تو تم کواس طرح رزق دیا جائے گا. جس طرح پرندوں کو رزق دیا جاتا ہے،وہ خالی پیٹ صبح کو نکلتے ہیں اور پیٹ بھر کر شام کو واپس آتے ہیں۔(سنن ترمذی)


حضرت ابو دردا سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:بلاشبہ رزق انسان کو ویسے ہی تلاش کرتا ہے جیسے اس کی موت اس کو تلاش کرتی ہے۔(صحیح ابن حبان)


اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالی نے ہر مخلوق کے لیے اس کارزق متعین کردیا ہے،اڑنے والے پرندوں کارزق فضاؤں میں اور زمین میں رکھا،مچھلی کا پانی میں،جنین کا ماں کے پیٹ میں،زمین پرحرکت کرنے والی ہر مخلوق کارزق زمین پر رکھا اور اس کے لیے وہاں پہنچنا آسان کر دیا ہے،ذرائع مختلف ہوسکتے ہیں ،یہ انسان کے اپنے اختیارپرمنحصرہے کہ وہ حصولِ رزق کے لیے کیسا ذریعہ اختیارکرتا ہے ۔جب اللہ تعالی کسی انسان کے ساتھ خیر کا معاملہ کرتا ہے تو اس کے رزق اور سامانِ زیست میں برکت عطا فرماتا ہے،

اگر چہ اس کے پاس رزق بظاہر کم ہی کیوں نہ ہو،لیکن ایسا انسان ذہنی اور قلبی اعتبار سے پرسکون ہوتااور اللہ کا شکراداکرتاہے،لیکن اگر اس کو برکت کی دولت سے محروم کردیا گیا تو اگر چہ اس کے پاس بہت کچھ ہو،لیکن اس سے اس کو کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوتا ہے،مزید یہ کہ بے برکتی کی وجہ سے مال و دولت اورتمام اسبابِ عیش ہونے کے باوجوداس کے دل میں ایک عجیب قسم کی بے سکونی اور بے چینی کی کیفیت برپارہتی ہے۔