مسجد کی سماجی و اقتصادی اہمیت

مسجد کی سماجی و اقتصادی اہمیت

ایک کامیاب معاشرہ کی خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس کے افراد ایک دوسرے کے ہمدرد و غمگسار ہوں۔ ایک کا دکھ سب کا دکھ اور ایک کی خوشی سب کی خوشی ہو۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کی مثال بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ :”تمام مسلمان ایک جسم کی مانند ہیں۔ اگر جسم کے ایک حصہ کو تکلیف پہنچے تو پورا جسم اس کی وجہ سے بے چین و بے قرار رہتا ہے۔”

علاوہ ازیں قرآن مجید نے بھی قریبیوں، پڑوسیوں اور اہلِ محلہ وغیرہ سے حسن سلوک کا حکم اکثر مقامات پر دیا ہے۔ لیکن اس حکم پر عمل پیرا ہونے کے لئے یہ ضروری ہے کہ اہلِ محلہ ایک دوسرے کے حالات سے واقف ہوں، اور معاشرہ میں یہ کردار بھی جس خوبی اور جس شاندار طریقے سے مسجد ادا کرتی ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔ ایک محلہ یا ایک گاؤں کے مسلمان دن میں پانچ مرتبہ مسجد میں جمع ہوتے ہیں۔ پھر ہر جمعہ کے روز بڑے پیمانہ پر ایک اجتماع عام ہوتا ہے۔

مزید پڑھیں:  سفارتی تعلقات بحال، 9 سال بعد ایران سے معتمرین عمرہ ادائیگی کیلئے سعودی عرب روانہ

جس کے باعث لوگوں کو ایک دوسرے کے قریب ہونے اور ایک دوسرے کے حالات جاننے کا موقع ملتا ہے اور بالآخر یہ چیز ایک دوسرے کی ہمدردی، ایک دوسرے کا دکھ درد بانٹنے اور باہمی مسائل کے حل کے لئے ممد و معاون ثابت ہوتی ہے اور اس طرح معاشرہ ترویج و ترقی کی راہ پر گامزن ہو جاتا ہے۔ تاریخ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ دورِ نبوی اور اس کے بعد خلافتِ راشدہ کے ادوار میں مسلمان صرف نماز کے لئے ہی مساجد میں اکٹھے نہیں ہتے تھے بلکہ ان کے تمام اجتماعی مسائل کے حل کے لئے صلاح و مشورے اور فیصلے وغیرہ بھی مساجد ہی میں ہوتے تھے۔

آج ہم مسلمان مساجد سے دور ہونے کی بنا پر اپنے اہل محلہ، قریبیوں اور ہمسایوں سے بھی کٹ کر رہ گئے ہیں اور ہمدردی وغیرہ کے جذبات سے یکسر عاری ہو چکے ہیں۔ ہمسایہ کی خیر خیریت پوچھنا، بیماری میں اس کی تیمار داری کرنا۔ اس کے دکھ سکھ میں شریک ہونا اور مصیبت میں اس کے کام آنا تو کجا اکثر لوگوں کو اپنے ہمسایہ کے نام اور کام کے متعلق بھی خبر نہیں ہوتی۔ بلکہ لا تعلقی اور بے حسی تو اس انتہا کو پہنچ چکی ہے کہ رات کو پڑوس میں کسی شخص کے ہاں چوری ہو جاتی ہے۔ یا کوئی قتل ہو جاتا ہے

مزید پڑھیں:  سفارتی تعلقات بحال، 9 سال بعد ایران سے معتمرین عمرہ ادائیگی کیلئے سعودی عرب روانہ

اور قریبی مکان والے کو اس کی خبر تک نہیں ہوتی اور اگر وہ حالات سے آگاہ ہو بھی جائے تو بھی اتنی زحمت گوارا نہیں کرتا کہ ہمدردی و تشفی کے چند بول ہی کہہ دے۔ مساجد میں روزانہ پانچ مرتبہ جمع ہو کر نماز پڑھنے والے افرادِ معاشرہ ان بدترین مثالوں کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ ناانصافی ہوگی اگر ہم مسجد کی سماجی اہمیت کے ضمن میں ان فوائد کثیرہ کا ذکر نہ کریں جو ایک معاشرے کو مسجد کے قیام سے صرف حاصل ہی نہیں ہوتے بلکہ ان کے بغیر ایک صحیح معاشرہ پروان ہی نہیں چڑھ سکتا اور ترویج و ترقی کی راہوں پر گامزن ہونے میں ناکام رہ جاتا ہے۔