اعلان نبوت سے ریاست مدینہ

اعلان نبوت سے ریاست مدینہ کے قیام تک

جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ میں کفار کو دعوت دے رہے تھے. تو آپ نے بارہا یہ جملہ ارشاد فرمایا کہ اس دعوت کو قبول کر لینے والے عرب و عجم کے حکمران بن سکتے ہیں،حضور کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں یہ بات ایک لمحے کے لیے بھی نظروں سے اوجھل نہیں ہونی چاہیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پیغمبر آخر الزمان ، خاتم الرسل ہیں۔ آپ کا اصل مقصد اور ہدف جس کی خاطر آپ کو دنیا میں بھیجا گیا ہے،

اسے قرآن کریم میں یوں بیان کیا گیا ہے کہ ”قرآن کی آیات پڑھ کر لوگوں تک پہنچانا، لوگوں کی اخلاقی، روحانی اور اندرونی اصلاح کرنا۔ کتاب اللہ کے اسرار رموز کی تعلیم دینا اور جو دانائی اللہ کی طرف سے آپ کو عطا ہوئی ہے جس کے سرچشمے آپ کے ذات سے جاری ہوئے ان کی تعلیم انسانیت کو دینا، یہ تھی حضور علیہ الصلوٰة کی بنیادی ذمہ داری۔ اس ذمہ داری کو انجام دینے کے لیے چونکہ آپۖ کے بعد کسی نبی کو نہیں آنا تھا، کسی شریعت کو نازل نہیں ہونا تھا ،

اس لیے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوة حسنہ کو جامع اور کامل اسوة حسنہ بنایا گیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جہاں افراد اور عام انسانوں کے لیے نمونہ ہیں ، وہاں آپ کی ذات مبارکہ حکمرانوں کے لیے ، فرمانروائوں ، فاتحین ، جرنیلوں اور سربراہان مملکت کے لیے بھی نمونہ ہے۔ اس لیے اللہ کی حکمت اس کی متقاضی ہوئی کہ آپۖ کی ذات گرامی میں نبوت اور حکمرانی دونوں کی صفات جمع فرمائی جائیں۔ دوسری بڑی وجہ یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو تبدیلی فرمائی، جو انسانی تاریخ کی اتنی ہمہ گیر تبدیلی ہے

جس کی مثال دنیا کی مدون تاریخ میں نہیں ملتی ۔ وہ تبدیلی جس نے زندگی کے ہر گوشے کو متاثر کیا ہے اور زندگی کا کوئی پہلو ایسا نہیں جو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی دی ہوئی تربیت سے اصلاح پذیر نہ ہوا اور اس کے اثرات اور ثمرات اور اس کے آثار و برکات اس نے قبول نہ کیے ہوں۔ اس ساری تبدیلی کے تحفظ کے لیے ، اسلام کے تمدن کی بقا کو یقینی بنانے اور اسلامی تہذیب کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے ریاست ایک ناگزیر ضرورت ہے۔