بیٹیوں سے حسن سلوک کیجئے

بیٹیوں سے حسن سلوک کیجئے

ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:
”اللہ تعالیٰ بیٹیوں کے ساتھ حسن سلوک کرنے والے کو جنت میں داخل کریں گے۔” (الحدیث)


اسلام سے قبل عرب کی حالت بہت بری تھی ، ہر طرح کی برائی ان میں درجہ اتم موجود تھی ، ان تمام برائیوں میں سے ایک برائی عورتوں سے بدسلوکی بھی تھی۔ عرب، خواتین کو جانور سے بھی بدتر خیال کرتے تھے، عموماً ایسا ہوتا کہ بیٹی پیدا ہوئی تو زندہ درگور کر دیا جاتا اور اگر کسی کو زندہ رکھتے تو اس کی زندگی محض ایک برتن کی سی تھی جسے استعمال ہی کیا جاتا ہے مگر اس کو کوئی مقام حاصل نہیں ہوتا۔ نہ اسے کوئی حقوق حاصل ہوتے ہیں۔
مگر جب اس ظلمت کدے میں اسلام کا نور پھیلا تو اللہ تعالیٰ کے نبی نے عورت کو ماں ، بہن ، بیٹی اور بیوی جیسے قابل احترام مقام عطا فرمائے اور اسے یہ مقام و مرتبہ اپنے گھر و معاشرے میں حاصل ہوا۔


سنن دارمی میں ایک واقعہ نقل کیا گیا ہے کہ ایک شخص رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اپنے عہد جاہلیت کا ایک واقعہ بیان کیا اورکہنے لگا کہ:
”میری ایک بیٹی تھی ، جو مجھ سے بہت مانوس تھی ، جب میں اسے آواز دیتا تو وہ میرے پاس دوڑی دوڑی آتی تھی مگر ایک روز میں نے اسے بلایا اور اپنے ساتھ لے کر چل پڑا۔ راستہ میں ایک کنواں آیا۔ میں نے اسے کنویں میں دھکا دے دیا۔ آخری آواز جو مجھے اس کی آئی وہ ”ہائے ابا ہائے ابا’‘ تھی۔

” یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رو دیے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے آنسو بہنے لگے۔
حاضرین میں سے کسی نے کہا : اے شخص تو نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو غمگین کر دیا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اسے مت روکو، جس چیز کا اسے سخت احساس ہے اس کے بارے میں اسے سوال کرنے دو۔


پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا کہ اپنا قصہ پھر بیان کر۔ اس نے دوبارہ اسے بیان کیا۔ اور آپۖ سن کر پھر روئے اور اس قدر کہ آپ کی ریش مبارک آنسوئوں سے تر ہو گئی۔ پھر آپۖ نے فرمایا: ”جاہلیت میں جو کچھ ہو گیا ہے اللہ نے اسے معاف کر دیا، اب نئے سرے سے اپنی زندگی کا آغاز کر۔” (سنن دارمی)


وہ تو قدیم عربوں کی حالت تھی مگر آج کے ماڈرن اور جدید کہلانے والے دور میں بھی بیٹی کو بعض جگہ ایک بوجھ سمجھا جاتا ہے اور بعض جگہوں پر اسے اس کے حقوق سے محروم کر دیا جاتا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جو شخص لڑکیوں کی پیدائش سے آزمائش میں ڈالا گیا اور پھر ان سے نیک سلوک کرے تو یہ اس کے لیے جہنم کی آگ سے بچائو کا ذریعہ بنیں گی۔” (بخاری و مسلم)


بیٹی اللہ کی رحمت ہے اسے بوجھ سمجھنا بدقسمتی ہے، بیٹی کا حق یہ ہے کہ اسے اچھی تعلیم و تربیت دی جائے اور جب وہ بالغہ ہو جائے تو اس کی شادی کسی اچھی جگہ کر دی جائے۔
ایک حدیث مبارکہ کا مفہوم ہے کہ جس نے اپنی بیٹی کی اچھی تربیت کی اور شعور دیا اس کی شادی اچھی جگہ کی تو گویا اس نے بیٹی کا حق ادا کر دیا۔
ایک اور جگہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جس کے ہاں لڑکی پیدا ہو اور وہ اسے زندہ دفن نہ کرے۔ نہ ذلیل کر کے رکھے۔ نہ بیٹے کو اس پر ترجیح دے۔ اللہ تعالیٰ اسے جنت میں داخل کریں گے۔ ” (ابودائود)


امام بخاری اور ابن ماجہ نے ایک روایت نقل کی ہے ۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”سب سے بڑا صدقہ (یا بڑے صدقوں میں سے ) تیری وہ بیٹی ہے جو (طلاق پا کر یا بیوہ ہو کر ) تیری طرف پلٹ آئے اور تیرے سوا کوئی اس کا کمانے والا نہ ہو۔” (بخاری ، ابن ماجہ)


واضح رہے کہ یہاں بیٹی سے مراد صرف بیٹی نہیں بلکہ بہن بھی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اس کو بوجھ نہ سمجھا جائے بلکہ اسے دوبارہ اپنے پاس باوجود غربت کے رکھ لیا جائے اور کوئی اچھا جوڑ دیکھ کر اس کی دوبارہ شادی کر دی جائے۔ مگر جان چھڑانے کے لیے کسی غلط آدمی کے حوالے نہ کرے ، مطلب یہ کہ خواہ مخواہ نکاح نہ کر دے بلکہ کوئی اچھا گھرانہ دیکھے۔ ورنہ اپنے پاس بٹھا کر رکھے اور حسن سلوک کرے۔


ایک حدیث مبارکہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر بیٹی بالغہ ہو جائے اور اس سے کوئی گناہ سرزد ہو جائے تو اس کا گناہ اس کے باپ کے سر ہے (کہ اس نے اس کی شادی کیوں نہیں کی جب کہ وہ جوان ہو گئی ) مراد یہ کہ بیٹیوں کی شادی ان کے بالغ ہوتے ہی کر دینی چاہیے تاکہ معصوم ذہن میں غلط باتیں نہ آئیں اور وقت کا بے نکاح گذرنا ان کے ذہن میں شرارت پیدا نہ کر دے۔ (حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے تربیتی ارشادات)