صبر کی حقیقت کا بیان

صبر کی حقیقت کا بیان

نفس کے اخلاق میں ایک اہم صفت خلق ہے ۔اس کے ذریعے ایسے فعل سے باز رہا جاتا ہے جو صحیح اور اچھا نہ ہو۔ یہ قوائے نفس کی ایسی قوت کا نام ہے جس سے اس کی حالت کی اچھائی اور معاملہ کی درستگی ہوتی ہے۔

جنید بغدادی سے اس کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا ”صبر،کڑواہٹ کو بغیر ناک بھوں چڑھائے نگلنے کا نام ہے”۔ ذوالنون مصری نے فرمایا ”یہ جرم سے دوری اور مصیبت کے لقموں کو نگلتے وقت سکون کا اور معیشت کے میدان میں فقر کے حلول پر بے نیازی کے اظہار کا نام ہے”۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ ”صبر ،مصیبت کے ساتھ حسن ادب سے قائم رہنے کا نام ہے ”۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ ”مصیبتوں میں بغیر شکوہ کئے بے نیازی برتنے کا نام ہے”۔ابو عثمان نے فرمایا ”صبر کرنے والا(صبار)وہ شخص ہے جس نے ناپسندیدہ حالات کے ہجوم کا اپنے نفس کو عادی بنا لیا ہو۔

ایک قول یہ ہے کہ مصیبت کے وقت ثابت قدمی مصیبت کی حالت کے ساتھ ایسی ہے جیسے عافیت کے ساتھ کھڑا ہونا،اس کا مطلب یہ ہے کہ بندہ پر اللہ کا یہ حق ہے کہ وہ عافیت اور مصیبت دونوں حالات میں عبودیت (بندگی) پر قائم رہے۔ لہٰذا بندہ کے لیے ضروری ہے کہ وہ عافیت میں شکر بجا لائے اور مصیبت میں صبر کرے۔ عمرو بن عثمان مکی نے کہا کہ ”صبر،اللہ تعالیٰ کے ساتھ ثابت قدم رہنا ہے اور اس کی دی ہوئی مصیبتوں کو کھلے دل سے قبول کرے۔ اس پر کوئی تنگی، ناراضگی اور شکوہ نہ کرے۔ الخواص نے کہا صبر احکام کتاب و سنت پر ثابت قدم رہنے کا نام ہے۔ رویم نے کہا کہ صبر شکوے کو ترک کر دینے کا نام ہے، بعض حضرات نے کہا کہ صبر اللہ تعالیٰ سے مدد مانگنا ہے۔

حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ”صبر وہ سواری ہے جو گرتی نہیں ”۔ابو محمد الجریری نے فرمایا کہ”صبر یہ ہے کہ نعمت اور مصیبت میں دل کے سکون کے ساتھ کوئی فرق نہیں رکھا جائے”۔اس پر میں کہتا ہوں کہ یہ طاقت سے باہر ہے اور اس کا حکم نہیں دیا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے طبیعتوں کو دونوں حالتوں میں الگ الگ رکھا ہے ۔طاقت میں صرف اتنا ہے کہ نفس کو جزع فزع سے باز رکھا جائے، تاکہ بندے کے نزدیک دونوں حالتیں برابر رہیں اور بندے کے لیے عافیت کا میدان صبر کے میدان سے زیادہ وسیع ہے۔ جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مشہور دعا ہے کہ:”اگر تو مجھ سے ناراض نہیں ہے تو مجھے کوئی پرواہ نہیں مگر پھر بھی تیرے امن (وعافیت)میں مجھ کو زیادہ گنجائش ہے”۔ طبرانی میں عبداللہ بن جعفر سے تفصیلی دعا مروی ہے ۔

لیکن اس دعا کو اس ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا معارض نہ سمجھنا چاہئے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”کسی شخص کو صبر جیسی وسیع اور بہتر عطا نہیں دی گئی”(متفق علیہ)کیونکہ یہ ارشاد بلاء نازل ہونے کے بعد صبر کے بارے میں ہے اور بلاء سے پہلے عافیت زیادہ وسیع ہے۔ ابو علی دقاق فرماتے ہیں کہ صبر کی حد یہ ہے کہ تقدیر پر اعتراض نہ کرے۔البتہ شکوہ کئے بغیر مصیبت کا اظہار کرنا یہ صبر کے منافی نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت ایوب علیہ السلام کے واقعہ میں ارشاد فرمایا ہے کہ”ہم نے اسے صابر پایا”۔(ص،آیت نمبر٤٤)حالانکہ حضرت ایوب علیہ السلام نے فرمایا کہ ”مجھے تکلیف آ پہنچی ہے ”۔(سورة الانبیائ،آیت نمبر ٨٣)میں کہتا ہوں کہ یہاں بھی لفظ کی لازمی معنی سے تفسیر کی گئی ہے۔


شکوہ کی اقسام : ابو علی دقاق کے قول ”شکوہ کئے بغیر”کی تفصیل یہ ہے کہ شکوے کی دو قسمیں ہیں۔پہلی قسیم یہ ہے کہ اللہ کی طرف شکوہ کیا جائے۔یہ صبر کے منافی نہیں ،جیسا کہ حضرت یعقوب علیہ السلام نے فرمایا تھا کہ ”میں اپنے رنج وغم کا شکوہ اللہ کی طرف کرتا ہوں”۔(یوسف آیت نمبر ٨٦)حالانکہ اس سے پہلے وہ صبر جمیل اختیار کرنے کا ارشاد فرما چکے ہیں۔اسی طرح حضرت ایوب علیہ السلام کے تکلیف کے اظہار کے باوجود اللہ تعالیٰ نے انہیں صبر کرنے والا فرمایا ہے۔سیدالصابرین صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی ۔اے اللہ میں تجھ سے اپنی قوت کے ضعف اور حیلہ کی قلت کا شکوہ کرتا ہوں ۔(مناجات مقبول) حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا”اے اللہ،تیرے لیے سب تعریفیں ہیں اور تجھ ہی سے شکوہ کرتا ہوں ، تو ہی مدد مانگے جانے والا ہے اور تجھ ہی سے مدد مانگی جاتی ہے۔تجھ ہی پر بھروسہ ہے۔

ولاحول ولاقوة الابک”شکوہ کی دوسری قسم ہے کہ زبان قال وحال سے شکوہ کہہ دینا۔ یہ صبر کے ساتھ جمع نہیں ہو سکتا، بلکہ یہ اس کے متضاد ہے۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ ”صبر ”نفس کی بہادری کا نام ہے،قائل نے اس قول سے استنباط کیا ہے کہ ”ایک ساعت کا صبر بھی بہادری ہے” ایک قول یہ ہے کہ اضطراب کی جگہوں میں دل کی مضبوطی کا نام صبر ہے۔
ایک قول یہ بھی ہے کہ صبر، عقل اور دین کے باعث پر خواہش اور شہوت نفسانی کے مقابلے میں ثابت قدمی کا نام ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ طبیعت اس کی پسندیدہ کام کا تقاضا کرتی ہو اور عقل اور دین کا باعث اسے اس کام سے روک دے۔ان دونوں کے مابین جنگ ہے اور جاری ہے۔اس جنگ کی محرک بندے کا دل ،صبر ،بہادری اور ثابت قدمی ہیں۔(توشہ صابرین وذخیرہ شاکرین…صفحہ نمبر28تا 32)