قطع تعلق کی حد

قطع تعلق کی حد

:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
لَا یَحِلُّ لِمُسْلِمٍ أَنْ یَّھْجُرَ اَخَاہُ فَوْقَ ثَلَاثِ
‘کسی مسلمان کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ اپنے (مسلمان) بھائی سے تین دن سے زیادہ تعلق منقطع رکھے۔’ (صحیح مسلم)
(ھجر) کا مطلب ہے ، بول چال اور میل جول بند کر دینا ، سامنے آئے تو منہ پھیر کر یا کترا کر نکل جانا۔ جب انسان کا کسی دوست، رشتے دار یا پڑوسی وغیرہ سے جھگڑا ہو جاتا ہے تو وہ غصے اور اشتعال میں آ کر اس سے بولنا اور ملنا پسند نہیںکرتا۔ شریعت نے بھی انسان کے ان فطری جذبات کی رعایت ملحوظ رکھی ہے اور تین دن تک غصہ دل میں رکھنے کی اجازت دی ہے

اور تاکید کی ہے کہ چوتھے دن صلح کر لو اور بات چیت اور میل جول کا آغاز کر دو۔ اور جو کلام کا آغاز کرنے کے لیے سلام میں پہل کرے گا ، وہ ان میں بہتر ہو گا۔ لیکن تین دن سے زیادہ بات چیت بند اور تعلق منقطع رکھنا جائز نہیں ہے. کیونکہ اس سے بغض و عناد میں اضافہ ہو گا اور دشمنی میں شدت و وسعت آ جائے گی جو دونوں متعلقہ شخصوں کے لیے نقصان دہ ہو گی ، اس لیے تین دن کے بعد تو ہر صورت صلح و مفاہمت کا راستہ اختیار کر لینا چاہیے اور اس میں جھوٹے وقار اور انانیت کو آڑے نہیں آنے دینا چاہیے۔ قرآن مجید کا ارشاد ہے : ترجمہ: ” صلح ہی بہتر ہے۔ ” (النساء : 128)

(اسلامی آداب معاشرت)