والدین کو راضی رکھنے کے اصول

والدین کو راضی رکھنے کے سنہرے اصول

والدین کے ساتھ حسن سلوک اور خصوصاً والدہ کی اطاعت اور فرماں برداری پر اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت زور دیا ہے۔ خاص طور پر جب والدین بوڑھے ہو جائیں تو ان کی عزت واحترام اور ان کے احکام کے احترام کا تقاضا یہ ہے کہ اولاد ان کے سامنے جھک جائے اور ان کی فرمائش پوری کرے۔ حقوق والدین تو کبھی پورے ہو ہی نہیں سکتے ،البتہ بعض ایسے طریقے ضرور ہیں جن پر عمل کر کے آپ ان کی رضا حاصل کرسکتے ہیں۔ان کو خوش کر سکتے ہیں۔مثلاً مختلف مواقع جیسے عید الفطر عیدالاضحیٰ یا رمضان مبارک کے آغاز پر اُن کی خوشیوں کا خیال رکھا جائے۔

بیٹے یا بیٹی ،پوتی ،بہن یا بھائی کی شادی کے موقع پر ان سے پوچھیں کہ اس موقع پر ان کا مشورہ ،رائے اور خواہشات کیا ہیں۔ آپ شادی کے اس موقع پر کون سا لباس پسند کریں گے۔ ان سے مشورہ کریں کہ شادی شدہ نئے جوڑے کو کیا چیز تحفے کے طور پر دی جائے۔اگر آپ کسی دوسرے شہر میں ہیں تو یہ باتیں فون پر بھی ہوسکتی ہیں۔ اگر کمپیوٹر پر انٹرنیٹ کی سہولت موجود ہو تو سکائپ کے ذریعے سے ایک دوسرے کے روبرو بیٹھ کر مشورہ کر لیں۔والدین کو محسوس کرائیں کہ وہ ہر معاملے اور مشورہ میں شریک ہیں۔ مثلاً:گرمی کا موسم آرہا ہے یا سردی کا موسم شروع ہونے والا ہے ۔آپ والدہ صاحبہ سے یا والد صاحب سے کہیں کہ چلیں بازار چلتے ہیں وہاں سے آپ کی مرضی کے کپڑے خریدتے ہیں۔اگر وہ کسی وجہ سے جانے پر راضی نہ ہوں تو ان کی پسند اور مرضی کے مطابق کپڑے خرید کر پیش کر دیں۔

اس طرح آپ دیکھیں گے کہ ان کو کتنی خوشی ہوتی ہے اور ان کے منہ اور دل سے آپ کے لیے کتنی دعائیں نکلتی ہیں۔آپ موقع کی مناسبت سے اُن کو سرپرائز بھی دیں۔اچانک ان کے سامنے ان کی پسند یا ضرورت کی چیزیں رکھ دیں۔ نہایت ادب اور احترام سے بتائیں کہ اماں جان یا ابا جان میں بازار میں تھا۔آپ کی ضرورت اور پسند کی چیزیں میرے دل کو بھا گئیں اس لیے میں نے آپ کے لیے خرید لیں۔ انھیں قبول فرمائیں۔ اس قسم کے کاموں سے والدین کو بے حد خوشی ہوتی ہے۔ مجھے اپنی ذاتی زندگی کا ایک واقعہ یاد آرہا ہے ۔ میں ایک کام کی غرض سے امریکہ میں مقیم تھا۔ ہیوسٹن شہر میں پرانی کاروں کا ایک شوروم تھا۔

وہاں سات سیٹوں والی ایک گاڑی میرے دل کو بھاگئی میں نے اسے خرید لیا میں نے والدہ صاحبہ کو فون کیا انھیں گاڑی خریدنے کی اطلاع دی اور کہا کہ اس میں ایک سیٹ آپ کے لیے مخصوص ہے ۔ بس پھر کچھ نہ پوچھیے ان کو میری اس بات سے اس قدر خوشی ہوئی کہ وہ کئی دن تک میرے اس فون کا چرچا کرتی رہیں۔اپنے ملنے اور جاننے والوں کو بتاتی رہیں کہ میرے عبدالمالک نے گاڑی خریدی ہے جس میں ایک سیٹ میرے لیے بھی رکھی ہے۔میں نے بلاشبہ ان سے غلط بات نہیں کہی تھی۔ انھیں گاڑی میں بہرحال بیٹھنا تو تھا ہی مگر صرف میری اس بات سے کہ ”ایک سیٹ آپ کی ہے!”ان کو جو مسرت نصیب ہوئی اس کا مجھے اندازہ ہی نہیں تھا۔یہ واقعہ جب بھی یاد آتا ہے مجھے یہ نازک سا خیال ضرور آتا ہے کہ ماں کی محبت کا پیالہ بھی کتنا اُتھلا ہے جو بیٹے کی ایک ننھی سی بات سُن کر ہی خوشی سے لبریز ہو جاتا ہے۔

(والدین۔ اطاعت و نافرمانی، واقعات کی زبانی)