ایک صحیح حدیث میں وارد ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ حنین میں مال غنیمت تقسیم کیا تو بعض لوگوں کو ترجیح دی۔ ایک آدمی نے عرض کیا:
”اس تقسیم میں انصاف نہیں کیا گیا۔”
یہ سن حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
”اگر اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم انصاف نہیں کریں گے تو کون انصاف کرے گا؟ اللہ تعالیٰ موسیٰ علیہ السلام پر رحم فرمائے کہ انہیں اس سے زیادہ تکالیف دی گئیں لیکن انہوں نے صبر کیا۔”
ایک صحیح حدیث میں وارد ہے کہ اُم المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
”میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اتنا کھلکھلاکر ہنستے ہوئے نہیں دیکھا کہ آپ کی داڑھیں ظاہر ہو جائیں’ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تو محض مسکرایا کرتے تھے۔”
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: ”جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم بادلوں یا ہوا کو آتے ہوئے دیکھتے تو آپ کے چہرہ پر پریشانی کے آثار دکھائی دیتے”۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا: ”یارسول اللہ! لوگ جب بادلوں کو دیکھتے ہیں تو اُمید پر خوش ہوتے ہیں کہ اس میں بارش ہوگی’ حالانکہ میں آپ کو دیکھتی ہوں کہ بادل کو دیکھ کر آپ کے چہرہ انور پر ناگواری کے اثرات ظاہر ہو جاتے ہیں؟”
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”اے عائشہ! مجھے کس چیز نے اس بات سے مامون کر دیا ہے کہ اس میں عذاب ہو؟ ایک قوم کو ہوا کا عذاب دیا گیا’ ایک قوم نے عذاب کو دیکھا تو کہا کہ یہ بادل ہم پر بارش برسائے گا۔”
یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے قرآنی قصوں سے متاثر ہونے کی دلیل ہے اور اس بات کی علامت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم قصہ جات میں موجود عبرتوں اور نصیحتوں کے تقاضے پر عمل کرتے تھے۔ (آنحضرتۖ کے بیان فرمودہ سبق آموز واقعات)