اسلام دور جدید کا خالق

اسلام دور جدید کا خالق

١٩٦٥ کا واقعہ ہے ۔اس وقت میں لکھنو میں تھا۔ میری ملاقات ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ غیر مسلم سے ہوئی۔وہ مذہب میں یقین نہیں رکھتے تھے۔اور مذہبی باتوں کو بے فائدہ سمجھتے تھے۔ گفتگو کے دوران انھوں نے کہا اسلام کو اگر تاریخ سے نکال دیا جائے تو تاریخ میں کیا کمی رہ جائے گی۔ یہ سن کر میری زبان سے نکلا وہی کمی جو اسلام سے پہلے تاریخ میں تھی۔

میرے اس جواب پر وہ فوری طور پر خاموش ہوگئے۔ انھوں نے محسوس کیا کہ بہ اعتبار تاریخ یہ بات صحیح ہے کہ وہ سب کچھ جس کو ترقی کہا جاتا ہے. وہ اسلام سے پہلے دنیا میں موجود نہ تھا۔ یہ صرف اسلام کے بعد ظہور میں آیا تاہم انھیں اس میں شبہ تھا کہ ان ترقیوں کے ظہور کا کوئی تعلق اس تاریخ واقعہ سے ہے جس کو اسلام یا اسلامی انقلاب کہا جاتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اسلام اصلاً ہدایت ربانی کا انکشاف ہے جو آدمی کو آخرت کی ابدی کامیابی کا راستہ دکھاتا ہے ۔

سائنسی اور صنعتی ترقیاں براہ راست اسلام کا مقصود و مطلوب نہیں ۔ مگر اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ سائنسی اور صنعتی ترقیاں اسلامی انقلاب ہی کا ایک نتیجہ ہیں۔ اگر اسلامی انقلاب دنیا میں نہ آتا تو سائنسی اور صنعتی ترقیاں بھی ظاہر ہوئے بغیر پڑی رہتیں۔ جس طرح وہ اسلامی انقلاب سے پہلے پڑی ہوئی تھیں۔ درخت کا اصل مقصد پھل دینا ہے مگر جب وہ بڑا ہوتا ہے. تو وہ انسانوں کو سایہ بھی دیتا ہے ۔یہی معاملہ اسلام کا بھی ہے۔اسلام کا اصل مقصد انسانوں کے اوپر ہدایت ربانی کا دروازہ کھولنا ہے تاکہ وہ اپنے رب کی ابدی قربت حاصل کر سکے۔مگر اسلام مکمل سچائی ہے،اور مکمل سچائی جب ظہور میں آتی ہے تو وہ ہر اعتبار سے انسانیت کے لیے برکت اور افادیت کا باعث ہوتی ہے ۔براہ راست بھی اور بالواسط تھی۔

(اسلام دورجدید کا خالق)