عرب کا اسرائیل سامنے سرتسلیم خم

عرب دنیا کا اسرائیل کے سامنے سرتسلیم خم

سعودی عرب نے کہا ہے کہ وہ2002کے امن معاہدے پر عمل درآمد کی شرط پر اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کے لئے تیار ہے۔ جیسے ہی اسرائیل 2002میں فلسطین کے تصفیے کے لیے پیش کیے گئے سعودی عرب کے امن معاہدے پر عمل کا اقرار کرے گا نہ صرف سعودی عرب بلکہ پوری مسلم دنیا اور او آئی سی کے57رکن ممالک اسرائیل کو تسلیم کرلیں گے۔ یاد رہے کہ سعودی عرب نے اسرائیل کو تسلیم کرنے کے لیے2002میں ایک امن معاہدے کی پیش کش کی تھی جس میں تمام عرب علاقوں پر اسرائیلی قبضے کے خاتمے اور آزاد فلسطینی ریاست کے قیام سمیت10 مطالبات رکھے گئے تھے۔ یہ بیان اسرائیلی میڈیا کے گزشتہ ماہ کے اس دعوے کے بعد سامنے آیا ہے جس میں کہا گیا تھا کہ20 امریکی یہودی رہنمائوں کے ایک وفد نے سعودی عرب کا دورہ کیا اور 6حکومتی وزراء اور سعودی شاہی خاندان کے سینئر نمائندوں سے ملاقات کی تھی۔ ملاقات کا مقصد ریاض اور تل ابیب کے درمیان تعلقات قائم کرنے کے امکانات پر نظر ثانی کرنا تھا۔اسرائیل سے سفارتی ‘سفری اور تجارتی تعلقات و روابط اور عرب ممالک کے موقف میں تبدیلی سے اس امر کا اظہار ہوتا ہے کہ عرب ممالک نے خطے میں اسرائیل کی بالادستی تسلیم کرلی ہے اور وہ بعض حیلے بہانوں کے ساتھ اس کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کے خواہاں ہیں بلکہ تعلقات قائم کر چکے ہیں۔ دیکھا جائے تو اس وقت اسرائیل ایک کے بعد ایک سفارتی کامیابی حاصل کرتا جارہا ہے اور اس بات کو عملی طور پر ثابت کرنے میں مصروف ہے کہ اسرائیل فلسطین کا مسئلہ حل کئے بغیر بھی عرب دنیا کے ساتھ تعلقات رکھ سکتا ہے عرب دنیا کااحوال بھی کوئی پوشیدہ امر نہیں اب عرب دنیا میں وہ عزم ہی دکھائی نہیں دیتا کہ وہ مظلوم فلسطینی عوام کا ساتھ دیں ان کی عملی مدد اور اسرائیل سے پنجہ آزمائی کی تو توقع ہی نہ تھی اور نہ ہی عرب ممالک نے اسرائیل کا قابل ذکر حد تک مقابلہ کرنے کی کبھی کوشش کی ٹکڑوں میں بٹے اور مفادات میں مگن عرب دنیا اب جس سمت چل پڑی ہے وہ از خود ایک ایسا راستہ ہے جوبالاخر عرب دنیا کی تباہی پر منتج ہو گا خاص طور پر سعودی کی شاہی قیادت نے تو اسلام کی علمبرداری چھوڑ کرکفراور طاغوت کو متعارف کرانے کی راہ اختیار کی ہے اس کا بالاخر انجام نابودی کا ہی نظرآتا ہے متحدہ عرب امارات کا تل ا بیب میں سفارتخانہ کھولنا اور متحدہ عرب امارات سے تل ابیب پروازوں کا آنا اسرائیل کی بڑی سفارتی فتح سے کم نہیں۔ دبئی میں بھی ایک اسرائیلی قونصل خانے کا افتتاح ہو چکا ہے۔اس کے باوجود عرب حکمرانوں کے حوالے سے اسرائیل کے ہتک آمیز رویے کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ۔اسرائیلی رہنما شائستگی کی خاطر عارضی طور پر بھی سفارتی طریقوں کاخیال نہیں رکھتے۔ چند سال پہلے تک، اسرائیلی رہنما دو ریاستی حل پر بھی کچھ گفتگو کرلیتے تھے اور یہودی بستیوں کے بارے میں خاموشی اختیار کرلیتے تھے۔ تاہم اب اسرائیلی قیادت خلیجی رہنمائوں کی فرمانبرداری کے بارے میں اس قدر پراعتماد ہے کہ اسے سفارتی دوغلے پن کی بھی کوئی ضرورت نہیں ہے۔


اگست میں امریکی صدر جو بائیڈن سے واشنگٹن میں ملاقات کرتے ہوئے اسرائیلی وزیر اعظم نفتالی بینیٹ نے واضح کیا تھا کہ اسرائیل مزید بستیاں تعمیر کرے گا اور1967 میں قبضہ کیے گئے علاقوں پر کسی فلسطینی ریاست کے قیام کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اس بیان پر عمل کرتے ہوئے اسرائیل نے مغربی کنارے اور مقبوضہ مشرقی یروشلم میں ایک ہزار نئی بستیوں کی تعمیر کے ٹینڈر جاری کردئیے۔ اسرائیل کے اس اقدام پر بائیڈن انتظامیہ کو بھی امریکا میں موجود طاقتور اسرائیلی لابی کے خلاف جاتے ہوئے یہ بیان جاری کرنا پڑا کہ مشرقی کنارے میں اسرائیلی بستیوں کی تعمیر سے اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے درمیان امن کی کوششوں کو ٹھیس پہنچے گی۔ امریکا نے تو یہ بیان جاری کردیا لیکن اسرائیل کے نام نہاد عرب اتحادیوں کی جانب سے اس حوالے سے کوئی بیان نہیں آیا۔ اسرائیل نے اپنے عرب دوستوں کا اصل امتحان تو مئی کے مہینے میں لیا جب اس نے11دنوں تک غزہ میں تباہی مچائے رکھی اس دوران رہائشی اور کاروباری عمارتوں کو زمین بوس کیا گیا۔حیران کن بات یہ ہے کہ غزہ میں ہونے والے قتل عام کا عرب ریاستوں کی مشترکہ پالیسی پر کوئی اثر نہیں پڑا جس کا ثبوت اسرائیل، امریکا اور دو خلیجی ریاستوں یعنی بحرین اور متحدہ عرب امارات کی جانب سے گزشتہ ماہ بحیرہ احمر میں کی جانے والی مشترکہ بحری مشقیں ہیں۔ اگر عرب ریاستوں نے فلسطین کو بھلا دیا ہے تو کوئی ہے جسے اب بھی فلسطین یاد ہے۔ عرب دنیا کی اس بے حسی پر جتنا بھی ماتم کیا جائے کم ہے اب عرب دنیا تو پیچھے ہٹ گئی ہے مگر جرمن چانسلر نے اپنے آخری دورہ اسرائیل میں میزبانوں کو یہ یاد دلوایا کہ انہیں ایک فلسطینی ریاست کے قیام کو نظرانداز نہیں کرنا چاہئے۔ ایک اسرائیلی تھنک ٹینک سے بات کرتے ہوئے مرکل کا کہنا تھا کہ متحدہ عرب امارات کے سفارتی اقدامات کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اسرائیل کے لیے فلسطینیوں کے ساتھ امن معاہدے کی ضرورت ختم ہوگئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں فلسطینیوں کے لیے زندگی گزارنے کے حق کو تسلیم کرنا چاہئے۔ اسی وجہ سے کسی بھی صورت میں دو ریاستی حل کو نظرانداز نہیں کرنا چاہئے پھر چاہے نئی بستیوں کی تعمیر سے یہ کام کتنا ہی مشکل کیوں نہ ہوجائے۔ان حالات میں سعودی عرب کے اقوام متحدہ میں مستقل مندوب کا بیان اسرائیل کو عملی طور پر تسلیم کرنے کا عندیہ ہے فلسطینی علاقے کے حوالے سے اب زبانی کلامی حمایت سے بھی شاید جلد ہی عرب ممالک ہاتھ کھینچ لیں اور ارض فلسطین پر اسرائیلی تسلط محکم ہو جائے۔