5 58

نہ کہیں جہاں میں اماں ملی

تمام دنیا پریشان ہے’ جائیں تو جائیں کہاں! کورونا وبا کے خاتمے کی کوئی تدبیر سجائی نہیں دے رہی ماسوائے یہ کہ تنہائی میں رہا جائے
عجب درد ہے جس کی دوا ہے تنہائی
بقائے شہر ہے اب شہر کے اُجڑنے میں
چین کے ووہان سے اُمید کی شمع روشن ہوئی ہے’ دو ماہ کے مکمل لاک ڈاؤن سے چین نے کرونا وبا سے کسی حد تک نجات حاصل کرلی ہے۔ لاک ڈاؤن کے لیکن اپنے مضمرات ہیں۔ ترکی یافتہ ممالک کے پاس وسائل موجود ہیں لیکن پاکستان جیسے ممالک مکمل لاک ڈاؤن کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ ابھی چودہ دن بھی نہیں گزرے کہ ہماری بس ہو گئی ہے اور تو اور صنعتکار اور بڑے تاجر بھی چلا اُٹھے ہیں۔ مارکیٹیں اور بازار کھلیں گے تو دیہاڑی دار اور کم تنخواہ پانے والوں کے روزگار کی صورت پیدا ہوگی۔ وزیراعظم عمران خان اول دن سے لاک ڈاؤن کے حق میں نہیں ہیں۔ ان کے پیش نظر یہی بھوک اور افلاس کا پہلو ہے، لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت پہلے مرحلے میں غریب کی دہلیز پر راشن پہنچانے کی کوشش کی ہے۔ بڑے پیمانے پر مخیرحضرات اور این جی اوز نے بھی راشن کی تقسیم کا بندوبست کیا ہے جو یقینی طور پر لائق تحسین ہے مگر یہ عارضی بندوبست ہے۔ حکومت نے بھی عوام کیلئے ایک بڑے امدادی پیکیج کا اعلان کیا ہے۔ 144ارب روپے فی خاندان 12ہزار روپے کے حساب سے وفاقی حکومت احساس پروگرام کے ذریعے تقسیم کرے گی جبکہ راشن کی فراہمی اس کے علاوہ ہے۔ پنجاب حکومت نے 25لاکھ خاندانوں کو فی خاندان 4ہزار روپے دینا شروع کر دئیے ہیں تاکہ ان کی وقتی ضرورتوں کا تھوڑا بہت بندوبست ہو سکے لیکن یہ وقتی مداوا ہے جبکہ کرونا کیخلاف جنگ طویل ہے۔ سردست لاک ڈاؤن ہے مگر اس کے باوجود خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ 25اپریل تک پاکستان میں کرونا کے کیسز 50ہزار تک پہنچ سکتے ہیں۔ اگر آزادانہ میل جول کی آزادی دیدی جاتی ہے تو اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ آنے والے مہینوں میں کرونا کی وباء کیا صورتحال پیدا کر سکتی ہے۔ وفاقی وصوبائی حکومتوں نے وباء کی روک تھام کیلئے اب تک جو اقدامات اُٹھائے ہیں وہ اطمینان بخش تو ہیں لیکن آفت کی نوعیت بہت بڑی ہے۔ ایک مقامی تحقیقی ادارے کے مطابق پاکستان کے غیرملکی کرنسی کے ذخائر 30جون 2020ء تک 8ارب ڈالر کی سطح پر آ جائیں گے جبکہ معیشت نصف سے ایک فیصد تک مزید سکڑ سکتی ہے ۔ ایسا پاکستان کی 72سالہ تاریخ میں پہلی مرتبہ ہوگا۔ جون 2020ء تک صنعتیں 40فیصد کارکردگی کے قابل ہوجائیں تو بڑی بات ہوگی۔
وزیراعظم نے اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے بروقت خبردار کیا ہے کہ کرونا وائرس کے باعث بُرا وقت آنے والا ہے کیونکہ وائرس کب ختم ہوگا پتہ نہیں۔ انہوں نے کہا کہ جہاں ترقی یافتہ ممالک نے گھٹنے ٹیک دئیے ہیں وہاں پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک کا کیا حال ہوگا۔ یہ ہے صورتحال کی سنگینی۔
اب اس سنگین صورتحال میں حکومت نے ایسا بندوبست کرنا ہے کہ معیشت کا پہیہ بھی چلے اور وبا سے بچاؤ کی تدابیر بھی لی جا سکیں۔ یہ کام یقینی طور پر تنے ہوئے رسی پر چلنے کے مترادف ہے۔ معیشت کو رواں رکھنے کیلئے وزیراعظم نے تعمیراتی صنعت کو چُنا ہے اور تعمیراتی شعبے کیلئے زبردست ریلیف پیکیج کا اعلان کیا ہے جس کی بزنس کمیونٹی کی طرف سے تحسین کی جا رہی ہے۔ بروز اتوار بڑے اخبارات میں چند ڈویلپرز کے اشتہارات شائع ہوئے ہیں جنہوں نے نیا پاکستان ہاؤسنگ پروگرام کیلئے ڈویلپڈ زمین کی مفت فراہمی کی پیشکش کی ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ تعمیراتی شعبے کیلئے حکومتی پیکیج کا زبردست خیرمقدم ہو رہا ہے۔ تعمیراتی شعبے سے 30سے زائد صنعتیں جڑی ہوئی ہیں لہٰذا توقع کی جا رہی ہے کہ تعمیرات کی بدولت ملکی معیشت کسی بحران سے بچ جائے اور مزدور کے گھر کا چولہا بھی جلے گا۔
ایک بات طے شدہ ہے کہ ہم خوف کی نفسیات میں رہ کر جی نہیں سکتے۔ ہمیں بتدریج اپنے آپ کو اس ماحول سے باہر نکالنا ہوگا۔ مناسب احتیاط کیساتھ تمام شعبہ جات میں سرگرمیوں کو بحال کرنا ہوگا کہ اس کے علاوہ ہمارے پاس کوئی چارہ نہیں ہے۔ ہم کرونا سے شاید نہ مریں لیکن ہم بھوک سے مر جائیں گے اور یہ موت زیادہ اذیت ناک ہوگی۔ پاکستان پر اللہ تعالیٰ کی خاص رحمت ہے کہ یہ زرعی ملک ہے’ ہمارے پاس اپنی ضرورت سے زائد تازہ پانی بھی ہے اور قابلِ کاشت زمین بھی۔ ہمارے پاس قدرتی اناج کا خزانہ ہے لہٰذا ہم انشاء اللہ بھوکے نہیں مریں گے۔ ہم نے اپنے اوپر ظلم یہ کیا ہے کہ جن عقیدت کے مراکز سے ہمیں نفسیاتی اور روحانی قوت ملتی تھی انہیں ہم نے بند کر دیا ہے۔ مساجد کو بند نہیں کرنا چاہئے’ مناسب احتیاط کیساتھ مساجد میں عبادت کا اہتمام کرنا بہت ضروری ہے کیونکہ اس وباء سے نجات کیلئے انسانوں کے پاس خدا کے حضور سربسجود ہو کر اپنی غلطیوں اور گناہوں کا اعتراف کرنے اور اللہ تعالیٰ سے مدد مانگنے کے علاوہ اور کیا راستہ ہے۔ ایک وہی اللہ ہی تو ہے جو ہر آفت اور وبا کو ہمارے سر سے ٹال سکتا ہے لہٰذا یہ وقت اجتماعی طور پر اس کے حضور گڑگڑانے کا ہے’ اس کے گھر جانے سے گریز کا نہیں ہے۔ بے بس اور لاچار لوگوں کی وہی آخری جائے پناہ ہے۔
نہ کہیں جہاں میں اماں ملی’ اماں ملی تو کہاں ملی
میرے جرم خانہ خراب کو تیرے عفو بندہ نواز میں

مزید پڑھیں:  ملازمین اور پنشنرز کا استحصال ؟