بلاوجہ کا سرحدی تنازعہ

بلاوجہ کا سرحدی تنازعہ

طالبان کے گزشتہ دور حکومت میں بھی پاک افغان سرحد کو تسلیم کرنے کے حوالے سے طالبان حکومت کو تحفظات تھیں دیکھا جائے تو سرحدی ا ختلافات کسی ایک دور حکومت میں نہیں بلکہ یہ دونوں ممالک کا دیرینہ مسئلہ چلا آرہا ہے لیکن اس حوالے سے کوئی سنجیدہ تنازعہ اور تصادم کی کیفیت کم ہی آئی ہے پاک افغان سرحد قبل ازیں ایک ناشناخت صورت میں تھی اور ڈیورنڈ لائن کے نقشے اور دستاویزات میں بھی ابہام تھا بعض جگہوں پر سطحی قسم کے اختلافات تھے لیکن بعض جگہوں پر پاک افغان سرحد کا درست علم تک نہ تھا جس کی پی ایچ ڈی کے ایک مقالے میں نشاندہی کے بعد ہی پاکستانی حکام کو کافی بڑے علاقے پرپاکستان کا قبضہ مستحکم بنانے کی سعی کرنی پڑی جس میں تصادم بھی ہوا اور پاک فوج کے جوانوں کی شہادت بھی ہوئی پاک افغان سرحد پر باڑ لگانے کے عمل میں پاک فوج کی قربانیاں اور مشکلات کوئی پوشیدہ امر نہیں بہرحال اب تھوڑا ہی علاقہ ایسا رہ گیا ہو گا جہاں باڑ لگانا باقی ہو۔ خیال رہے کہ پاکستان نے افغانستان کے ساتھ ساتھ ایران کی سرحد کے ساتھ بھی باڑ لگانے کا منصوبہ چند برس پہلے شروع کیا تھا۔پاکستان اس منصوبے پر خطیر رقم خرچ کررہا ہے اور یہ باڑ سرحد پر غیر قانونی نقل و حمل اور افغانستان سے دہشت گردوں کی آمد کی روک تھام کے لئے لگائی جارہی تھی افغان طالبان سے قبل بھی وہاں موجود حکام اس منصوبے کی مخالفت کرتے رہے ہیں۔افغانستان میں طالبان کی حکومت کے قیام کے بعد یہ پہلا واقعہ ہے کہ جس میں باڑ کو ہٹایا گیا ہے۔ایک ویڈیو اور تصاویر میں کچھ افغان سکیورٹی اہلکار خار دار تاریں اٹھائے نظر آ رہے ہیں اور بڑی تعداد میں خار دار تاریں زمین پر پڑی ہوئی ہیں۔ ٹویٹ کے مطابق ان خصوصی فورسز کی قیادت طالبان کے انٹیلی جنس چیف کر رہے ہیں۔اس ٹویٹ میں کہا گیا ہے کہ افغان فوجیوں کے مطابق یہ خار دار تاریں افغانستان کی حدود کے اندر لگائی گئی ہیں۔ سوشل میڈیا پر جاری ویڈیو میں چادر اوڑھے ایک شخص کو دیکھا جا سکتا ہے جو پہاڑ پر موجود دور سے بظاہر پاکستانی اہلکاروں کو خبردار کرتے ہوئے افغانستان کی حدود کے اندر داخل ہونے سے منع کررہے ہیں۔اس ٹویٹ کے مطابق یہ واقعہ افغانستان کے صوبہ ننگر ہار میں ضلع گوشتہ کے مقام پر پیش آیا ہے اور یہ علاقہ خیبر پختونخوا کے قبائلی ضلع مہمند سے ملتا ہے۔باڑہٹانے کے حالیہ واقعہ سے متعلق پاکستان اورطالبان حکومت کی جانب سے سرکاری طورپرکوئی تفصیلات نہیں بتائی گئیں۔اس طرح کے سرحدی اختلافات کو دو رکرنے کا درست طریقہ وہ نہیں جو مبینہ ویڈیو میں اختیار کیا گیا ہے اور نہ ہی وہ گفتگو یا خبرداری کے نامناسب الفاظ ہیں ۔

پاکستان اور افغانستان کی سرحد کے معاملات کا حل دھمکی آمیز گفتگونہیں بلکہ مل بیٹھ کر نقشہ پھیلا کر دستاویزات کی رو سے حدود کا تعین ہے اس طرح کے ناقابل برداشت رویہ کا جواب دیا گیا توخود طالبان حکومت کے لئے مشکل کھڑی ہو جائے گی حیرت انگیز امر یہ ہے کہ پاکستان افغانستان کی ناتسلیم شدہ حکومت کی بالحکمت سفارتکاری میں مصروف ہے یہ واحد مسئلہ ہے جس پر عسکری سیاسی قیادت حکومت اور حزب اختلاف میں کسی سطح پر اختلافات نہیں بلکہ افغان عوام کی دست گیری و غمخواری کے واضح عمل کااظہار ہے ۔ پاکستان افغان عوام کی دامے درمے قدمے سخنے ہر قسم کی مدد و دستگیری کے لئے کوشاں ہے مگر معلوم نہیں طالبان حکومت کے بعض سرحدی حکام کوپاکستان سے کیا پرخاش ہے اس طرح کی ایک حرکت پر طورخم سرحد سے غیر ضروری حرکت کے مرتکب افراد کو ہٹا کر ان کے خلاف کارروائی کاعندیہ دیا گیا تھا تازہ واقعہ کے کرداروں کے ساتھ بھی یہ سلوک نہ ہوا تو اسے کابل کی تائید سمجھنا فطری امر ہو گا جس کا طاقت سے جواب دینے کی تو ضرورت نہ ہو گی البتہ چمن اور طورخم کے سرحدی گیٹ بند کرکے ان کو احساس دلایا جا سکتا ہے اور ایسا کیا جانا چاہئے ۔ محولہ ویڈیو اور صورتحال کے حوالے سے پاکستان کی جانب سے کوئی سرکاری بیان جاری کیا گیا ہے اور نہ ہی افغان حکومت کی جانب سے اس حوالے سے کوئی موقف سامنے آیا ہے ممکن ہے اسے معمول کا معاملہ سمجھ کے نظرانداز کیا گیا ہوکم از کم آئندہ اس طرح کے واقعات کا تدارک ہونا چاہئے اور اس ضمن میں افغان حکام سے بات چیت ہونی چاہئے حیرت انگیز امر یہ ہے کہ جن دنوں طالبان حکومت کے اہم عہدیدار اسلام آباد میں تھے انہی دنوں یہ واقعہ رونما ہوااس طرح کے واقعات کے اثرات دونوں ہمسایہ ممالک کے تعلقات پر پڑ سکتے ہیں اس لئے سرحدی حکام کو محتاط رویہ اختیار کرنے کی ضرورت ہے بہتر ہو گا کہ طالبان حکومت کے عہدیداران اس واقعے کا نوٹس لیں اور غلط فہمی دور کرنے کے اقدامات کئے جائیں جہاں اختلافات ہوں وہاں دھمکی کی بجائے حقائق کو مد نظر رکھ کر معاملات نمٹائے جائیں۔