پاکستان بنگلہ دیش معاشی تقابل

پاکستان بنگلہ دیش ، معاشی تقابل

کچھوئے اور خرگوش کی دوڑ میں کچھوا اس لیے جیت گیا کہ وہ اپنی سرشت میں مستقل مزاج تھا جبکہ خرگوش بظاہر چست اور پھرتیلا ہوتے ہوئے بھی ہار گیا کیونکہ وہ اپنے حریف کو کم تر جانتے ہوئے عزم و استقلال سے انحراف کی غلطی کر بیٹھا۔ جی ہاں۔ آپ صحیح سمجھے۔ ہار بیچ راستے میں سو جانے والوں کا مقدر ہے۔ ہم جب اپنی خواہشوں اور امنگوں کو جگاتے ہیں اور اپنے امور کی انجام دہی کے لیے محنت کو شعار بناتے ہیں تو جیت ہمارا مقدر بنتی ہے۔

کر رہا تھا غم جہاں کا حساب

جب ہم تساہل اور سست روی کا راستہ اپناتے ہیں تو ہمیں ہار کا سامنا ہوتا ہے۔ ہمارے اعمال کی نوعیت ہی ہماری راہ کا تعین کرتی ہے۔ یہی تقدیر انسانی ہے جسے دست قدرت نے روز ازل سے اپنے ارادے کی ان مٹ روشنائی سے لکھ رکھا ہے۔ بنگلہ دیش میں معاشی ترقی کا عمل یک مشت واقع نہیں ہوا۔ ایک وقت تھا جب وہاں آبادی کا 80فیصد حصہ معاشی انحطاط’ غربت’ بیماری’ جہالت اور پسماندگی کا شکار تھا۔ ترقی پذیر معاشروں کی مشترک بیماریاں بنگلہ دیش کو بھی لاحق رہیں۔ اداروں کا تصادم، سیاسی افراتفری، فوجی بغاوتیں ۔۔ کیا کچھ نہیں تھا وہاں؟ پھر زمانے کی آنکھ نے وہ وقت بھی دیکھا جب مسائل کی بساط نے سمٹنا شروع کیا اور انسانی عزم کے آگے حالات کی کشیدگی نے سپر ڈال دیئے۔ آج بنگلہ دیش دنیا کی 37ویں بڑی معیشت ہے جہاں ملکی شرح نمو کا تخمینہ 409 بلین ڈالر سے تجاوز کر چکا ہے۔ صحت اور تعلیمی سہولیات کی فراہمی سمیت عورتوں اور بچوں کی فلاح و بہبود سے متعلق بڑھتی سرمایہ کاری نے بنگلہ دیشی عوام کے معیار زندگی پر کہیں مثبت اثرات مرتب کیے ہیں۔

زندگی خوشی کا نام ہے

بنگلہ دیش کی حالیہ معاشی ترقی کے عمل میں ہمارے لیے تقابل اور موازنے کے کئی ایک پہلو نمایاں ہیں۔ حالیہ چند سالوں میں بنگلہ دیش میں فنی تعلیم اور بالخصوص پرائمری تعلیم کے شعبے میں ہماری نسبت کہیں زیادہ توجہ مرکوز رکھی گئی۔ معاشی خوشحالی کے باعث بڑھتے معیار زندگی نے بنگلہ عوام کو اپنے بچوں کے لیے حصول تعلیم کے نسبتا بہتر مواقع فراہم کیے۔ ہمارے ہاں عوامی سطح پر غربت عام ہے جس کی وجہ سے ہمارے لوگوں کے لیے زیادہ بچے پیدا کرنے کا عام جواز محض یہ ہے کہ بھوک مٹانے کے لیے زیادہ سے زیادہ ہاتھوں کی فراہمی ممکن ہو پائے۔ تعلیم اور حفظان صحت ہماری غریب آبادی کے لیے ترجیحی ضروریات کی فہرست میں شامل نہیں۔ اقوام متحدہ کی مرتبہ ایک رپورٹ کے مطابق بنگلہ دیش میں پرائمری تعلیمی سطح پر بچوں کی حصول تعلیم کی شرح 98فیصد ہے جن میں بچیوں کا تناسب نسبتاً زیادہ ہے۔ ہمارے ہاں غربت کا سیل رواں ہے جس کے باعث ہمارے زیادہ تر بچے اسکولوں سے باہر ہیں جبکہ عورتیں تعلیم سے عاری اور اپنے بنیادی حقوق سے تہی گھروں میں پابند سلاسل ہیں۔ بنگلہ دیش کی معاشی ترقی کا ایک اہم سبب معیشت کی زرعی شعبے سے صنعتی شعبے کی طرف مراجعت ہے۔ یہ ایک اہم پیش رفت ہے۔ بنگلہ دیشی معیشت زیادہ تر ایک صنعتی معیشت ہے جہاں ملکی آبادی کا صرف 13فیصد حصہ زراعت سے وابستہ ہے اور اسکے باوجود بنگلہ دیش اپنی167ملین آبادی کی خوراک کی ضروریات پوری کرنے میں خود کفیل ہے۔

بلاوجہ کا سرحدی تنازعہ

اس کے برعکس ہماری آبادی کا70فیصدی حصہ زراعت سے منسلک ہونے کے باوجود ہم اپنی غذائی اجناس قیمتی ملکی زر مبادلہ کے عوض بیرون ملک سے درآمد کرنے پر مجبور ہیں۔ حالیہ سالوں میں صنعت اور خدمات کے شعبے میں ترقی کے عمل نے بنگلہ دیش میں روزگار کے نسبتا زیادہ مواقع فراہم کیے ہیں۔ بنگلہ معاشرے میں آج عورتوں کی اکثریت ٹیکسٹائل اور دستکاریوں کے شعبے سے وابستہ ہے۔ اسی طرح بنگلہ نوجوانوں کے لیے چھوٹی صنعتوں کے قیام کے ذریعے روزگار کے مواقع فراہم کرنے پر توجہ مرکوز رکھی گئی ہے۔ ہمارے ہاں مستقل روزگار کی فراہمی کے لیے عملی منصوبہ بندی تو کہیں دکھائی نہیں دیتی ہاں کبھی کبھار غربت اور بے روزگاری کی ستائی نوجوان نسل میں جز وقتی امداد کی ریوڑیاں ضرور بانٹی جاتی ہیں۔ بنگلہ دیش کی معاشی ترقی کا غالبا اہم ترین پہلو عورتوں کی تعلیم اور سماجی و معاشی زندگی میں ان کی فعالیت ہے۔

بلدیاتی انتخابات کا سبق

معاشرتی زندگی میں عورتوں کا نفوذ نہ صرف عورتوں میں شعور میں اضافے کا باعث بنا بلکہ عورتوں میں بڑھتی شرح تعلیم نے عملًا بنگلہ سماج میں ایک انقلاب برپا کر دیا۔ حالیہ سالوں میں معاشرتی زندگی میں عورتوں کی شمولیت نے بنگلہ طرز زندگی کو بدل دیا جس کے مثبت اثرات ملک کی بڑھتی شرح آبادی میں تخفیف کی صورت ظاہر ہوئے۔ ہم بنگلہ دیش سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ سیکھنے کے عمل میں بڑے چھوٹے یا مراتب کی درجہ بندی کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔ ہمیں اپنی بڑائی کے خول سے باہر آنا ہو گا۔ ہمیں اس زنجیر کو توڑنا ہو گا جس نے ہمارے پائوں کو جکڑ رکھا ہے۔ بقول مجروح سلطان پوری:
دیکھ زنداں سے پرے رنگِ چمن جوشِ بہار
رقص کرنا ہے تو پھر پاں کی زنجیر نہ دیکھ