شارٹ کٹ

شارٹ کٹ ، اور تو کیا تھا بیچنے کے لئے

پتہ نہیں ہمارے ہاں خوابوں کی تجارت کا کاروبار ہمیشہ کامیاب کیوں رہا فقیر راحموں کے بقول "چیز وہی بکتی ہے جس کے خریدار ہوں جب لوگ تعبیروں کے حصول کی جدوجہد کی بجائے خواب دیکھنا ہی پسند کرتے ہوں تو خواب ہی فروخت ہوں گے” ، ویسے ہمارے ہاں صرف سیاسی جمہوری معاشی خواب ہی فروخت نہیں ہوتے کچھ اور اقسام کے خوابوں کی تجارت بھی تاجروں کی نسلیں سنوار دیتی ہے لیکن خریدار، ان کی بات رہنے دیجئے یہ پچھلے خواب چوری ہونے پر پیٹ کاٹ کر نیا خواب خرید لیتے ہیں ایسے خریداروں کی بدولت ہی ہر طرف اور ہروقت رونق لگی رہتی ہے خیر چھوڑئیے یہ ہم نے کیا قصہ شروع کردیا لوگ بنا تعبیر کے خوابوں میں میں خوش ہیں تو ہمیں یا آپ کو کیا ہمارے ایک مرحوم استاد قبلہ مگسی صاحب کہا کرتے تھے تعبیروں کے لئے جدوجہد نہ کرنے والوں سے جگالی میں مصروف رہنے والے جانور اچھے ہیں۔ آسمان کو چھوتی مہنگائی نے ملازمت پیشہ سفید پوش طبقات کا بھی جینا دوبھر کردیا ہے اور وہ اپنی سفید پوشی کا بھرم رکھنے کیلئے دن بدن زیرِ بار ہوتے جارہے ہیں غربت میں کمی کا صرف ایک طریقہ ہے وہ کاٹیج انڈسٹری کا فروغ جو کبھی بھی کسی حکومت کی ترجیح نہیں رہا۔ ہر حکومت کسی نہ کسی نام سے عبوری ریلیف پروگرام دیتی رہی ہے یہی اس کے نزدیک اس کی سیاسی زندگی کے دوام میں مددگار ہوتا ہےجبکہ غربت کے خاتمے کے لئے طویل المدتی منصوبہ بندی کی ضرورت ہے ہم سبھی کو چونکہ شارٹ کٹ پسند ہے اس لیئے ہماری حکمران اشرافیہ شارٹ کٹ کو خواب بیچتی رہتی ہے۔ اسی طرح مہنگائی کا معاملہ ہے۔ حکومت کے اس ضمن میں دو موقف ہیں اولا یہ کہ یہ عالمی مسئلہ ہے ثانیا مہنگائی کیوجہ ذخیرہ اندوزی، منافع خوری اور سمگلنگ ہے۔ اصولی طور پر پوچھا تو یہ جانا چاہیے کہ تحریک انصاف کی موجودہ حکومت نے ذخیرہ اندوزی، منافع خوری اور سمگلنگ کے خاتمے کے لئے پچھلے سوا تین سال میں کیا اقدامات اٹھائے؟کیا بہت ادب کے ساتھ یہ دریافت کیا جاسکتا ہے کہ موجودہ حکومت کے سوا تین سال کے اب تک کے عرصہ میں پسماندہ علاقوں میں کتنے ترقیاتی منصوبے مکمل ہوئے اور غربت میں کتنی کمی ہوئی؟ دوسری طرف ہمارے چار اور صورتحال یہ ہے کہ یوٹیلٹی بلز میں ہونے والے مسلسل اضافہ نے لوگوں کی زندگی اجیرن بنارکھی ہے۔ یہ دعوی ہے کہ حکومت ملک میں غربت ختم کرنے اور پسماندہ علاقوں میں تعمیروترقی کے اہداف کے حصول کو اپنا مشن سمجھتی ہے؟ مجھے یہ عرض کرنے میں کوئی امر مانع نہیں کہ وعدے اور دلکش اعلانات سنتے سنتے سوا تین سال گزرگئے، مالیاتی شعبہ سے تعلق رکھنے والے وزیراعظم کے اپنے بعض دوست معاشی حوالے سے مختلف کہانیاں بیان کررہے ہیں۔ ملکی ترقی کمزور طبقات اور پسماندہ علاقوں کے لئے دردمندی کا اظہار اپنی جگہ لیکن صرف دردمندی سے مسائل حل ہوتے ہیں نہ ان کی سنگینی میں کمی آتی ہے۔ ان حالات میں اگر شہریوں کا ایک بڑا طبقہ یہ سوال کرتاہے کہ افغانستان میں انسانی المیہ پر دنیا کو متوجہ کرتی حکومت اپنے شہریوں کی حالت زار کو دیکھنے کی زحمت کیوں نہیں کرتی تو اس کا برا منانے کی بجائے ایسے اقدامات کی ضرورت ہے جو اصلاح احوال کا ذریعہ بن سکیں۔ حرف آخر یہ ہے کہ معاشی طور پر ہم ایک بند گلی میں پھنس چکے ہیں بہتر یہی ہوگا کے عوام کو اعتماد میں لیا جائے تاکہ وہ بھی خوابوں اور وعدوں کی دنیا سے باہر نکل کر حالات کا مقابلہ کرنے کیلئے خود کو تیار کریں۔