مرے کو مارے شاہ مدار

مرے کو مارے شاہ مدار

وفاقی حکومت نے منی بجٹ قومی اسمبلی میں پیش کر دیا ہے لیکن فی الوقت اس پر ووٹنگ نہیں ہوئی اور اتحادیوں کے تیور دیکھ کر اسے موخر بھی کرنا پڑ گیا ہے بہرحال بل کو ضمنی مالیاتی بجٹ 2021کا نام دیا گیا ہے اس اجلاس میں حیران کن طور پر وزیر اعظم ‘ قائد حزب اختلاف اور تیسری بڑی پارٹی کے رہنما موجود نہیں تھے جو ہمارے غمخواروں کا عوام کے غم میں سوکھ کر کانٹا ہونے کا عمل ہے یا پھر کچھ اور اس سے قطع نظراپوزیشن قیادت کا اس اہم موقعے پر اجلاس سے غائب ہونا سمجھ سے بالاتر ہے۔ قومی اسمبلی اجلاس کے بعد وزیر خزانہ شوکت ترین نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ عام آدمی پر دو ارب روپے کا ٹیکس لگا رہے ہیں بل میں 343 ارب روپے کے ٹیکس کی چھوٹ پر نظر ثانی کر رہے ہیں ان کا مضحکہ خیز موقف یہ تھا کہ مالیاتی ضمنی بجٹ میں عام آدمی کے متاثر ہونے کی باتیں بے بنیاد ہیں۔ واضح رہے کہ منی بجٹ میں روز مرہ استعمال کے 42آئٹم پر ٹیکسوں کی چھوٹ ختم کی گئی ہے۔ منی بجٹ کے حوالے سے وزیر خزانہ کا استدلال جو بھی ہو یہ منی بجٹ کسی بھی صورت عوام دوست نہیں ہے بلکہ اس سے مہنگائی کا بوجھ بڑھے گاامر واقع یہ ہے کہ آئی ایم ایف گزشتہ دس برسوں سے پاکستان کی حکومتوں سے ٹیکس اصلاحات کا مطالبہ کر رہا ہے لیکن ماضی کی حکومتیں اس کے لئے دوسری راستے نکالتی تھی مگر موجودہ حکومت نے تین برسوں میں اس سلسلے میں کوئی اقدام نہیں کیا ٹیکس کے حوالے سے کوئی گروتھ نہیں ہوئی بلکہ انہوں نے ٹیکس اصلاحات کے لئے خود جو کوششیں شروع کی تھی انہیں بھی ختم کردیا بعض ماہرین معیشت تو یہاں تک کہتے ہیں کہ حقیقت یہ ہے کہ اس حکومت نے تین برسوں میں امیر طبقے کو سبسڈی دی ہے اب ان کی قیمت غریب عوام سے وصول کی جارہی ہے آئی ایم ایف پروگرام کی طرف جانا کوئی نئی بات نہیں ہر حکومت آئی ایم ایف پروگرام کی طرف جاتی ہے لیکن سابق اور موجودہ حکومت میں فرق یہ ہے کہ اس حکومت نے نئے وسائل تلاش نہیں کئے اور انہوں نے سیدھا سیدھا ضروری اشیاء پر ٹیکس لگا دیا ہے جس کا براہ راست اثر عام آدمی پر پڑے گا۔17فیصد جنرل سیلز ٹیکس کی زد میں آنے والی اشیاء کی قیمتوں میں اضافے سے عام آدمی پوری طرح متاثر ہو گا حکومت کی جانب سے ادویات کے خام مال ‘ بیکری میں بننے والی روٹی ‘ مٹھائی ‘ بچوں کے دودھ میں استعمال والے اجزاء ‘ دہی ‘ پنیر ‘ مکھن ‘مرغبانی کی صنعت کی بیشتر اشیاء اور مرغیوں کی خوراک سورج مکھی اور کینولا ہائی برڈ بیجوں ‘ ڈیری فارمنگ اور گرین ہائوس فارمنگ پریکساں 17فیصد جنرل سیلز ٹیکس تجویز کیا ہے جس کے لاگو ہونے سے خوراک اور ادویات کی قیمتوں میں اضافہ ہوگا یہ ٹیکس صرف خوراک کے شعبے تک محدود نہیں بلکہ ٹیلی فون اور ضرورت کی بہت سی اشیاء جن پر سیلز ٹیکس بڑھایا گیا ہے مہنگی ہو جائیں گی ایک ایسا ملک جس سے صنعت و پیداوار میں اضافے کی فکر کرنی چاہئے جس کے نتیجے میں لوگوں کو روزگار ملے اور برآمدات کا بار کچھ کم ہو اس نے موبائل فونز بنانے والے پلانٹ اور مشینری کی درآمد پر بھی 17فیصد جنرل سیلز ٹیکس لگا دیا ہے ۔ زراعت جو ہمارے ملکی معیشت کا سب سے بڑا ذریعہ سمجھا جاتا ہے اس کو جدید بنانے کے لئے مشینری کی درآمد میں چھوٹ دینے کی ضرورت ہے مگرحکومت نے اسے بھی ٹیکس چھوٹ دینے کو ضروری نہ سمجھا۔ حکومت نے آئی ایم ایف کا ٹارگٹ پورا کرنے کے لئے اس ضروری صنعت کو نہیں بخشا اور زرعی مشینری اور زراعت میں استعمال ہونے والے آلات پر بھی جنرل سیلز ٹیکس لاگو کر دیا حکومت نے چند ارب روپے کے ٹیکس کی خاطر زراعت کے ان جدید وسائل جس کے ذریعے پانی کی کفایت ممکن بنایا جا سکتا ہے اس پر بھی ٹیکس لگا دیا اسی طرح پولٹری کی صنعت کی متعدد اشیاء پر یکساں 17فیصد جی ایس ٹی لگا دی جس کے نتیجے میں گوشت اور انڈوں کے نرخوں میں اضافہ ہوگا اور یہ اشیاء نہ صرف مہنگی ہوں گی بلکہ اس کاروبار سے وابستہ افراد بھی متاثر ہوں گے ۔ستم بالائے ستم یہ کہ ماچس کی ڈبیہ اور آئیوڈین ملے نمک پربھی 17فیصد ٹیکس لگا گیا دیا ہے یہ سبھی اشیاء تیل پر لیوی کی مد میں ماہانہ چارفیصد اضافہ کے علاوہ ہے محولہ اقدامات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ آئی ایم ایف کی شرائط پوری کرنے کے لئے حکومت کس حد تک گئی ہے اور کس قسم کی معمولی اشیاء تک پر سیلز ٹیکس لگانے سے دریغ نہیں کیا افسوسناک امر یہ ہے کہ حکومت کے تمام دعوئوں اور جھوٹی تسلیوں کے باوجود اسے تسلیم کرنے پر تیار نہیں کہ لاغر معیشت پرمحصولات کا بوجھ بڑھانا درست فیصلہ نہیں حالیہ فیصلوں کے بعد پاکستان نے معاشی اعتبار سے دنیا کے اس حصے میں خود کو دوسروں سے نمایاں طور پر الگ کر لیا ہے ایک ایسا ملک جہاں شرح سود سب سے زیادہ ہے توانائی کے نرخ بھی سب سے زیادہ ہیں صرف یہی نہیں جی ایس ٹی اور دوسرے ٹیکسز بھی ریکارڈ توڑ زائد ہیں۔ حکومت کی تمام معاشی پالیسی اسی نکتے پر مرکوز ہو گئی ہے کہ آئی ایم ایف کے قرضے ملنے کے بعد دیگر قرض دہندہ عالمی اداروں سے قرض مل سکتے ہیں لہٰذا عوام پر کتنا بھی بوجھ پڑے آئی ایم ایف کی منشاء پوری ہونی چاہئے حکومت کی اس پالیسی میں پاکستان کا غریب اوسط آمدنی والا چھوٹا بڑا کاروباری طبقہ ‘محنت کش تاجر ‘ نوجوان اور کارخانہ دارغرض بچے اور بیمار افراد کسی کا بھی حکومت نے احساس نہیں کیا اور ٹیکسوں کی شرح میں اضافہ اور مہنگائی میں اضافہ دراضافہ کرنے کے تو درپے ہے مگر ترقیاتی اخراجات کم کر کے بچت کی طرف کوئی متوجہ نہیں ہوتا۔ حکومت کی معاشی تجربات ناکام ہونے کے باعث ملکی معیشت پر بے یقینی کے بادل گہرے ہوتے جارہے ہیں یہ حالات نہایت پریشان کن ہیں جس کا تقاضا یہ ہے کہ ملک میں ایسے اعتماد کی سازگار فضاء پیدا کی جائے جوسرمایہ کاری کے لئے موزوں ہو مشترکہ کوششوں سے ہی ملک کو اس معاشی ابتری کی دلدل سے نکالنا ممکن ہوگا۔