طالبان اور پاکستان

طالبان اور پاکستان

افغانستان اشرف غنی کے سائے سے آزادہو کر اب طالبان کے زیر سایہ آچکا ہے مگر مسائل ہیں کہ کم ہونے کی بجائے بڑھتے ہی جا رہے ہیں ۔ افغانوں کے باہمی اختلافات اور شدت پسندانہ رویوں کے باعث شروع ہونے والے مسائل تو اپنی جگہ مگر پاکستان کے لئے طالبان کا افغانستان بدستور ایک درد سر بنتا جا رہا ہے۔ یوں لگتا ہے امریکہ کے افغانستان سے انخلاء سے مسائل قطعی ختم نہیں ہوئے بلکہ مسائل کا ایک دور اختتام کو پہنچا اور اب نئے مسائل اور نئے چیلنجز نے سر اُٹھالیا ہے ۔ ڈیورنڈ لائن پر طالبان کے ساتھ توتکار کی خبروں نے پاکستان کے لئے خطرے کی گھنٹی بجادی ہے ۔طالبان کا باڑھ اکھاڑ کر لے جانا اور طالبان کے انٹیلی جنس چیف کا اس کارروائی کو اوونر شپ دینا آنے والے دور کے خدشات کو حقیقی ثابت کرنے کے لئے کافی ہے ۔طالبان کے ساتھ ڈیورنڈ لائن کا مسئلہ ایک مستقل عذاب ہے ۔ طالبان کے گزشتہ دور میں ملا عمر نے بھی اس مسئلے پر پاکستان کے موقف کو تسلیم کرنے کی بجائے معاملے پر وقتی مصلحت کی چادر ڈال دی تھی ۔اب بھی طالبان کی حکومت اس معاملے میں کسی بڑی رعائت کے موڈ میں نہیں ۔طالبان کے اندرونی معاملات بھی کچھ زیادہ اچھے نہیں ۔طالبان کے اندر ملا اخوند اور ملا برادر کے واضح گروپ ہیں ۔حقانی نیٹ ورک اس پر مستزاد ہے ۔ تحریک طالبان اور داعش سمیت دوسرے گروہ بھی افغانستان میں موجود ہیں ۔ پنج شیر میں انتقام اور بدلے کی چنگاری ابھی سلگ رہی ہے ۔ پنج شیر میں اس چنگاری کے دب جانے میں طالبان سے زیادہ وسط ایشیائی ممالک کی خاموشی اور نیوٹرل ہونے کا زیادہ دخل تھا۔اب یہ وسط ایشیائی ممالک بھارت کی دعوت پر دہلی میں جا کر کھسر پھسر کرنے لگے ہیں ۔ بھارت کسی طور ایک مستحکم اور پاکستان دوست افغانستان نہیں چاہتا ۔وہ چاہتا ہے کہ اگر کابل میں پاکستان کے لئے نرم گوشہ رکھنے والی حکومت آتی ہے تو اس سے بہتر ہے کہ وہاں خانہ جنگی چلتی رہی۔ پنجشیر میں طالبان کے مراکز پر میزائل حملوں کی خبریں یہ بتارہی ہیں کہ سب اچھا نہیں ۔ جو قوتیں طالبان کا کھیل پاکستان پر اُلٹنے کے لئے تحریک طالبان پاکستان جیسا بڑا چیلنج کھڑ ا کر سکتی ہیں ان کے لئے پنجشیر سے ایک طالبان مخالف مزاحمت کا آغاز کرنا مشکل نہیں ۔ طالبان کا عسکری اُبھار اپنی جگہ مگر افغانستان میں طالبان مخالف جذبات بھی کم نہیں ۔خواتین اور دوسری نسلی اکائیاں طالبان سے مستقل پرخاش رکھتے ہیں ۔خواتین نے فوڈ ،ورک اور فریڈم کے مطالبات کے بینر اُٹھا کر طالبان کے خلاف احتجاج کرنا شروع کر دیا ہے۔ معاشی بدحالی کے ماحول میں لوگ جینے اور سانس لینے کا حق مانگ سکتے ہیں اور اس حق کی مخالفت کوئی نہیں کر سکتا ۔ایک طرف یہ چیلنج ہے تو دوسری طرف طالبان نے اپنا رویہ اور حکمت عملی نہ بدلنے کی قسم کھا کر رکھی ہے ۔ قحط اور خانہ جنگی اور عالمی تنہائی کا خطرہ دروازے پر کھڑا ہے اور طالبان خواتین کے سفر پر پابندیوں کے شوق فرمارہے ہیں ۔ حد ہے کہ اتنے بڑے چیلنجز میں بھی انہیں یہ یاد ہے کہ خواتین کتنے کلومیٹر تنہا سفر کرسکتی ہیں اور کہاں سے آگے غیر محرم کے ساتھ سفر جرم ہوگا جس کی پاداش میں انہیں جیل کی ہوا کھانا پڑے گی ۔ماضی میں بھی طالبان نے حقیقی مسائل کا ادراک کرنے کی بجائے لوگوں کی شلواریں ناپنا شروع کی تھیں۔ طالبان اس بار بدل جانے کا دعویٰ تو کر رہے ہیں مگر اس تبدیلی کے آثار زمین پر نظر نہیں آتے۔پاکستان کا مسئلہ یہ ہے کہ گزشتہ بیس برس میں افغانستان میں پاکستان مخالف جذبات پورے زوروں پر رہے ۔ امریکہ کی سرپرستی میں قائم نظام میں بھارت اور کابل حکام نے افغانوں کو یہ باور کرایا ان کے نسل در نسل دکھوں کی وجہ پاکستان ہے ۔ پاکستان نے افغانستان میں سوویت یونین کی مزاحمت میں اپنا کردار ادا کرکے افغانستان کو خانہ جنگی کا شکار بنانے میں اہم کردار ادا کیا اور اب بھی پاکستان افغانستان میں اپنے تزویراتی مفاد ات کی تکمیل کے سرگرداں ہے ۔ یہ بات افغانستان کے پیرو جواں کو ازبر کرائی گئی یہاں تک پاکستان میں قائم پناہ گزینوں کے کیمپوں میں نئی نسل کے ذہنوں میں یہ جذبات تیزی سے سرایت کرگئے۔ پاکستان نے ہیرو بننے کے لئے افغانوں کی مزاحمت میں اپنا کردار ادا کیا مگر اسے ولن بنا دیا گیا۔طالبان کے برسراقتدار آنے کا مطلب ان جذبات کا خاتمہ نہیں ۔ یہ جذبات ٹی ٹی پی کی صور ت میں طالبان کی ایک معقول تعداد کو بھی متاثر کر چکے ہیں۔طورخم بارڈ ر پر ایک ٹرک سے پاکستانی جھنڈا اتارنے کی بات زیادہ پرانی نہیں۔ افغانستان میںپاکستان مخالفت جذبات کی لہر ایک زمینی حقیقت ہے اور طالبان اس لہر کے اُلٹے رخ چل کر اپنے خلاف عوامی ردعمل کو بڑھاوا نہیں دے سکتے۔وہ اس جذباتی ماحول میں اپنے اوپر پاکستان کی کٹھ پتلی یا دوستی کا ٹھپہ لگنے سے بچنے یا اسے اُتارنے لئے حیرت انگیز طور پر بہت سے معاملات میں زیادہ سخت گیر رویے کا مظاہرہ کر سکتے ہیں۔ایسے میں پاکستان کو پھونک پھونک کر قدم رکھنا ہوں گے ۔افغانستان سے بے نیل ومرام ہو کر جانے والے جا چکے ہیں مگر افغانستان کی ڈیمو گرافی کی بدولت ان کے پلٹ کر حملہ کرنے کی صلاحیت آج بھی باقی ہے۔