2 126

کورونا کے پھیلاؤ میں اضافہ، تشویشناک امر

خیبر پختونخوا بشمول صوبائی دارالحکومت پشاور میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے کمزور اقدامات کے باعث اس کے پھیلاؤ کے حوالے سے ماہرین نے جن خدشات کا اظہار کیا تھا ان کا درست ثابت ہونا تشویشناک صورتحال کا باعث امر ہے۔ کورونا وائرس کا شکار ہونے والوں کے حوالے سے درست اعداد وشمار کی اہمیت مسلمہ ہے، اس ضمن میں معروف سائنسدان ڈاکٹر عطاء الرحمن بار بار توجہ دلا چکے ہیںکہ جب تک ٹیسٹنگ کی صلاحیت نہیں بڑھائی جائے گی کنفرم کورونا کیسز کی صحیح تعداد کا علم نہیں ہو سکتا۔ ملک میںجاری وباء کے پیش نظر یومیہ چالیس پچاس ہزار ٹیسٹ کرنے کی ضرورت محسوس کی جارہی تھی لیکن اس کا حکومت انتظام نہ کر سکی، اب بھی یہ استعدادوصلاحیت موجود نہیں۔ ماہرین کا خیال ہے کہ اگر درست اور تیزی سے ٹیسٹ کئے جائیں تو ملک میں کورونا وائرس سے متاثرین کی تعداد ایک لاکھ تک ہو سکتی ہے، بہرحال اس اندازے سے اتفاق ضروری نہیں البتہ وزیراعظم کی طرف سے بار بار پچاس ہزار کی تعداد کا اندازہ غیرذمہ دارانہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اگرچہ اس وقت کم اور ناکام لاک ڈائون کر کے ایک ایسی مشکل ضرور کھڑی کر دی گئی ہے جسے اختیارکرنا ہی مجبوری ہے لیکن دوسری جانب ٹیسٹنگ کی صلاحیت نہ بڑھانے کے باعث مریضوں کی صحیح تعداد کا علم نہیں ہو پارہا، صرف یہی نہیں بلکہ کورونامریضوں کی صحیح تعداد اس لئے بھی سامنے نہیں آرہی کہ لوگ مختلف وجوہات کی بناء پر سرکاری مراکز سے رجوع نہیں کرتے جس کی سماجی وجوہات کے علاوہ حکومتی اقدامات اور علاج معالجے کی سہولتوں پر عوام کا عدم اطمینان بھی ہے۔ بعض شکایات کے مطابق سرکاری اہلکار اطلاع دیئے جانے کے باوجود متاثرہ علاقہ جانے اور قرنطینہ کرنے میں تساہل کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ ٹیسٹ نہ ہونے اور اس قسم کے حربوں یا غفلت کے باعث صورتحال کو بہتر ظاہر کرنے کی جو غلطی دہرائی جاتی رہی اس کے نتائج اب سامنے آنا شروع ہوگئے ہیں۔ ہمارے نمائندوں کے مطابق تشخیصی ٹیسٹوں کی تعداد بڑھاتے ہی مریضوں کی تعداد اچانک بڑھ کر پانچ سو ہوگئی ہے اور یہ کوئی حتمی تعداد نہیں بلکہ جوں جوں ٹیسٹ ہوتے جائیں گے مریضوں کی تعداد میں اضافہ کا خدشہ ہے۔ صرف گزشتہ روز ہی رپورٹ شدہ کیسوں کی تعداد سو کے قریب ہے، اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ابھی صوبہ بھر میں ٹیسٹ کی سہولتوں کی کمی اور عوام کی طرف سے ان مراکز سے رجوع کی شرح بھی نہایت کم ہے، ایسے میں لاعلمی میںمریضوں سے وائرس کے پھیلائو اور مزید در مزید علی ہذالقیاس اس کے پھیلائو اور وباء کے مزید سنگین ہونے کا امکان زیادہ نظر آتاہے۔ خیال رہے کہ پاکستان میں26فروری کو کورونا کا پہلا کیس سامنے آیا تھا اور اب تک مجموعی تعداد چارہزار سے تجاوز کر گئی جبکہ پچپن افراد اس وباء کے باعث زندگی کی بازی ہار چکے ہیں۔ یکم اپریل سے ملک میں کورونا کے مریضوں کی تعداد میں تیزی دیکھی گئی ہے اور کیسز میں مارچ کے مقابلے میں دوگنا اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ خیبرپختونخوا میں ان کیسز کی تعداد پانچ سو سے زائد ہوگئی ہے ۔اس ساری صورتحال میں سوائے لاک ڈائون کو مزید سخت کرنے کی تجویز کے اور کوئی ٹھوس حکمت سامنے نہیں آئی ہے، لاک ڈائون مزید سخت کرنے سے اختلاف کی کوئی صورت نہیں لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ نرم معتدل اور سخت لاک ڈائون کی اصطلاحات کی ضرورت کیوں پیش آئی۔ ہم سمجھتے ہیں کہ سیدھی سی بات تو یہ ہے کہ ایک جانب صوبے میں لاک ڈائون کے نام پر شہریوں کو مشکلات کا شکار تو بنادیا گیا بین الاضلاعی ٹرانسپورٹ سے لیکرپبلک ٹرانسپورٹ تک عملی طور پر معطل ہے، کاروبار بنداور دفاتر بند ہیں، اس کے باوجود اس کے پھیلائو میں اضافہ کی ایک بڑی وجہ کیا یہ نہیںکہ حکومت لاک ڈائون کی پابندی نہ کراسکی، سوائے بڑے شہروں کے اہم مقامات کے علاوہ باقی کہیں بھی لاک ڈائون کی پابندی نہیں ہورہی ہے، ایسے میں لاک ڈائون کے فوائد تو حاصل ہوتے دیکھائی نہیں دیتے البتہ اس سے پیدا شدہ مشکلات سب کے سامنے ہیں۔ اگر لاک ڈائون کی صحیح معنوں میں پابندی ہوتی تو آج اس میں توسیع اور شدت کے امکانات پر غور کرنے کی شاید ضرورت ہی نہ پڑتی۔ دوسری جانب اگر دیکھا جائے تو ابھی پاکستان میں کورونا وائرس کا پھیلائو اپنے عروج کو نہیں پہنچا اور نہ ہی اتنے سخت لاک ڈائون کے دن گزرے ہیں کہ اس کے نتائج کی توقع کی جا سکے، چین میں اسی دن کے مکمل لاک ڈائون کے بعد ہی صورتحال بہتر ہوئی، دنیا کے دیگر ممالک میںچین کے بعدایران واحد ملک بتایا جاتا ہے جہاںوباء کی شدت کمزور پڑ گئی ہے، باقی دنیا میں کہیں معمولی اورکہیں اس کی تباہ کاریوں اور پھیلائو کا عمل جاری ہے۔ اس صورتحال میں اس امر کی توقع نظر نہیں آتی کہ پاکستان میں رواں ماہ بہتری کی کوئی صورت سامنے آئے۔ کورونا وائرس کیخلاف جاری کئی دنوں کی اس جدوجہد میں اس امر کا احساس بڑھتا جارہا ہے کہ آخر حکومت واضح حکمت عملی کیساتھ سامنے کیوںنہیں آرہی ہے، حکومت یکبارگی اس امر کا فیصلہ کیوں نہیں کر رہی ہے کہ کورونا وائرس سے بچائو کیلئے کونسے اقدامات ضروری ہیں۔ ایک جانب لاک ڈائون دوسری جانب نرمی کی حکمت عملی سے آخرکیانتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔ وائرس کا بحران کب آخری حدود کو چھوئے گا اور یہ حد کیا ہوسکتی ہے، یہ بحران کتنا طویل ہوگا اس حوالے سے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے پاس اقدامات تو درکنار درست اندازے ہی کی وجود نہیں۔ اس ساری صورتحال کو دیکھ کر تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہم موجودہ حالات میں آنکھیں باندھ کر ادھر اُدھر بھٹک رہے ہیں۔حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس امر کا اندازہ لگائے کہ آگے چل کر حالات کیا رخ اختیار کرسکتے ہیں، ظاہرہے فی الوقت تو مشکلات ہی نظر آتے ہیں اور ان کے تدارک کی کوئی صورت دکھائی نہیں دیتی۔ بات پھر گھوم پھر کر وہی آجاتی ہے کہ ہمارے پاس ٹیسٹنگ کے درست اعدادوشمار دستیاب نہیں اس صورتحال میں ٹیسٹنگ کا عمل ہی بہت زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ لاک ڈائون تو صرف ٹیسٹنگ کے عمل میں اضافے اور وائرس کے پھیلائو کے تدارک کا عمل ہے یہ مسئلے کا حل نہیں، درست اعدادوشمار کے بغیر تو سمت کا درست اندازہ تک ممکن نہیں۔ خیبر پختونخوا کی حکومت اور محکمہ صحت کیلئے کورونا وائرس کے پھیلاؤ میں اضافہ بڑا چیلنج ہے، اس چیلنج سے نمٹنے کیلئے جہاں حکومت کو درست سمت میں تیزی سے اقدامات کی ضرورت ہے وہاں عوام کم ازکم اپنے ہی جانوں کے تحفظ کیلئے احتیاط کر کے وائرس کی منتقلی کے عمل کو سست کر سکتے ہیں جس کے بغیر اس وباء پر قابو پانا ممکن نہیں۔

مزید پڑھیں:  نشستن و گفتن و برخاستن