132 ممالک میں پاکستان 117 نمبر

132 ممالک میں پاکستان کا 117 نمبر

پچھلے دنوں اخبارات کی سرخیاں دیکھنے میں مصروف تھا کہ دنیا میں جدت طرازی کے بین الاقوامی اشاریئے 2021 سے متعلق ایک خبر پر نظر ٹک گئی۔ معلوم ہوا کہ ملک عزیز میں لوگ زیادہ تر جدت کی غیر یقینیت سے گھبراتے ہیں۔ گویا ہمارے ہاں نئے تجربات کی افادیت سرے سے کوئی معنی ہی نہیں رکھتی جس کا عملی ثبوت اشاریئے میں دی گئی عالمی درجہ بندی ہے جس کے مطابق جدت پسندی کے اعتبار سے ہم دنیا کے بڑے چھوٹے 132ممالک میں سے ننانویں نمبر پر ٹکے بیٹھے ہیں۔ ناں صرف یہ بلکہ قریب 81مختلف عوامل پر مبنی اس درجہ بندی کا ایک اہم ستون انسانی سرمائے اور تحقیق و جستجو کی اہمیت سے متعلق ہے۔ یہ وہ میدان ہے جہاں ہماری کارکردگی اقوام عالم میں کہیں بدتر ہے۔ یعنی انسان کی بحیثیت سرمایہ قدروقیمت اور علمی تحقیق کے شعبوں میں ہم درجہ وار132ممالک میں سے117ویں نمبر پر ہیں۔


ہم انسان کی بحیثیت سرمایہ افادیت کے قائل کیوں نہیں؟ ہمارے ہاں سالانہ اربوں روپے اعلی تعلیمی اداروں اور جامعات کے قیام و انصرام پر اڑا دیئے جاتے ہیں۔ اور پھر اس سب کچھ کے باوجود ہم ایسی علمی کاوش سے عاری ہیں جسے کسی بھی متفقہ معیار پر علمی تحقیق کا نام دیا جا سکے۔ آخر کیوں؟ جدت طرازی اصل میں دستیاب وسائلِ تعمیر و قوت کو اپنے حسب ضرورت بروئے کار لانے کی انسانی صلاحیت کا نام ہے۔ اسی جدت کی بدولت انسان اپنے طبعی ماحول پر قابو پاتا چلا گیا جس سے تہذیب کا پہیہ رواں دواں رہا۔ انسان جس طبعی ماحول میں رہتا وہاں اسے لاتعداد مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ قدرت کی عجیب کارگزاری ہے کہ جہاں مسائل ہوتے ہیں وییں ان کے حل کے اسباب بھی موجود ہوتے ہیں۔ انسان صرف ان اسباب کو کھوجنے اور انہیں بہتر سے بہتر طور پر اپنے استعمال میں لانے کے طریقوں پر غور کرتا ہے۔ اگر آپ غور کریں تو معلوم ہو گا کہ فطری ذرائع بقا کو کھوجے بغیر انسانی ترقی کسی دور میں بھی ممکن نہیں تھی۔ آج سے ہزاروں سال پہلے انسان جنگلوں بیابانوں میں رہتا تھا۔ اس دور میں انسان کو اپنی بقا کے لیے سخت محنت اور جہدکوشی کا سامنا تھا۔ اسکی گزر اوقات کا انحصار زیادہ تر جنگلی نباتات اور شکار پر تھا۔ ایسے میں انسان نے اپنے اطراف کا جائزہ لیا۔ اسے اپنے طبعی ماحول میں پتھر ایک ایسا عنصر دکھائی دیا جسے توڑ پھوڑ اور تراش خراش کے ذریعے وہ اپنی ضروریات کے موافق ڈھال سکتا تھا۔ یہ انسانی جدت طرازی کی غالبا پہلی نمایاں کوشش تھی جہاں سے پتھر کے دور کی شروعات ہوتی ہیں۔ تہذیبی ارتقا کا اگلا دور وہ تھا جب انسان نے مختلف دھاتوں کو پگھلا کے نئی شکل میں ترتیب دینے کا تجربہ کیا۔ اس دور میں انسان نے تانبے اور جست کو بروئے کار لایا جن کے پگھلے سیال آمیزے سے اس نے کانسی کی دریافت کی۔ کانسی کی دریافت سے انسانی تہذیب ترقی کے نئے دور میں داخل ہوئی۔ دھاتوں کی آمیزش سے متعلق ابتدائی انسانی تجربات نے بعد کے ادوار میں لوہے کے استعمال کو ممکن بنایا۔ لوہا مضبوط تھا لیکن انسان کا عزم و ارادہ اس سے بھی کہیں مضبوط تھا۔ لوہے کے دور کے کمالات نے انسان کی تہذیبی پیش رفت کو تیز تر کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔


جدت اور نئی سوچ نے ہر دور میں انسان کو اپنی زندگی آسان اور بہتر بنانے کے لیئے نت نئے انداز اور طریقے وضع کرنے کی ترغیب دی۔ پتھر، کانسی اور لوہے کے استعمال نے تہذیب انسانی کے ارتقا کے مختلف مراحل میں انسان کو روایتی ذرائع سرمایہ کے بہتر سے بہتر استعمال کے مواقع فراہم کئے۔ ہوا، آگ، پانی، مٹی اور اس کی پیداوار معاشی اعتبار سے سرمائے ہی کی مختلف شکلیں ہیں۔ موجودہ دور میں معاشی اغراض کے پیش نظر انسانی محنت، لگن اور جستجو کے ساتھ ساتھ انسانی مہارت اور ذھانت کو بھی ایک اہم ترین اثاثے کی حیثیت سے تسلیم کیا گیا ہے۔ انسان بھی ایک اہم سرمایہ ہے جس کی فلاح اور بہتری کی کوشش دراصل پوری قوم کی ترقی کی کنجی ہے۔ انسانوں کے معیار زندگی کو بہتر بنانے کی غرض سے کی گئی سرمایہ کاری انکی بہتر کارکردگی کی ضامن ہے۔ ایسی سرمایہ کاری کا مقصد دراصل ترقی کے حصول کے لیے انسانوں کو اپنی بہترین صلاحیتیں صرف کرنے کی ترغیب دینا ہے۔ معاشرے کی تزئین اور ترقی کے لیے جدید نظریات کو انسان ہی بروئے کار لاتے ہیں جبکہ جدید نظریات کی تشکیل اور ان سے استفادے کے لیے مناسب اور سازگار ماحول کی فراہمی ہی ترقی اور کامیابی کی پہلی سیڑھی ہے۔ ہمارے ہاں ترقی کے اہداف، تنقیدی سوچ، تخلیقی عمل اور جدت پسندی دراصل ایک ہی عمل کے سلسلہ وار مراحل ہیں جو کہ سب کے سب ہمارے گردو پیش کے انسانوں کو تعمیر و ترقی کے بلاتفریق مواقع فراہم کیے جانے سے مشروط ہیں۔


انسانی سرمائے کی افزائش کے لیے جدید جامعات کے کلیدی کردار کو بھی نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے۔ جامعات تحقیق اور مکالمے کے فروغ کا باعث بنتی ہیں۔ ستم یہ ہے کہ ہمارے ہاں جامعات میں معیار کی بہتری کے نام پر صرف کاغذوں کا طومار اکٹھا کر دیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں تحقیق نئے نظریات کی آبیاری کی بجائے صرف ٹھپے پر ٹھپا لگانے کا دوسرا نام ہے۔ ہماری جامعات کی فعالیت کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنے نصاب کو اپنی عملی ضروریات سے ہم آہنگ کریں۔ نئی سوچ وہیں پیدا ہوتی ہے جہاں اسکی ضرورت محسوس کی جائے۔ ہمارے ہاں تحقیق و جستجو کے معیار کی بہتری تب ہی ممکن ہے جب ہم اپنی علمی اور فکری صلاحیتوں کو اپنے ہاں کی معاشی، معاشرتی، صنعتی اور تجارتی ضروریات پوری کرنے کے لیے کام میں لائیں۔ ہمیں اپنی خودساختہ اور فرسودہ روایات کے خول سے باہر آنا ہو گا۔ ہمیں تجربات کی غیریقینیت کے باوجود تجربات کی بھٹی میں اپنا آپ جھونکنا ہو گا۔ ہمارے ہاں جدت افکار ممکن ہے بشرطیکہ ہم اپنے حقیقی مسائل کو غیرجذباتی انداز سے سمجھ پائیں اور پھر ان کے حل کی عملی کوشش کریں۔ ہمیں نئے مسائل کا سامنا ہے جبکہ ہمارے سوچنے کے انداز تاحال پرانے ہیں۔ ہمیں اپنے مسائل کے حل تجویز کرنے کے لیے اپنے لوگوں کی صلاحیتوں پر انحصار کے ساتھ علمی تحقیق و جستجو کو تسلسل کے ساتھ جاری رکھنا ہو گا۔