بلدیاتی انتخابات ملتوی ہونے کا خدشہ

شادی مرگ

اب ہم اتنے بھی خوش نصیب نہیں ہیں کہ ہمارے بنکوں والے غلطی ہی سے سہی ، اپنے صارفین کے اکائونٹس میں راتوں رات بیلنس بڑھا کر انہیں ” شادی مرگ” کی کیفیت سے دو چار کر دیں ، بلکہ الٹا یہاں تو ان دنوں ڈیجیٹل بنکنگ پر نوسربازوں کے حملے شدید سے شدید تر ہو رہے ہیں اوراگر بندہ تھوڑی سی غلطی کرتے ہوئے ان اٹھائی گیروں کے چنگل میں پھنس جائیں تو الٹا اپنے ہی بیلنس سے ہاتھ دھو سکتے ہیں اور ابھی چند ہی روز پہلے بعض بنکوں کے ویب سائٹس ہیک ہونے کی اطلاعات نے پورے ملک میں تشویش کی لہر دوڑا دی تھی ، اس دوران لوگوں کو اپنے اکائونٹس تک اے ٹی ایم کے ذریعے رسائی نہیں مل رہی تھی ، حالانکہ متعلقہ بنکوں نے اپنے ویب سائٹس ہیک ہونے کی کوئی تصدیق نہیں کی بلکہ ان کی جانب سے متعلقہ اکائونٹ ہولڈروں کو ” سسٹم ” میں کسی خرابی کی اطلاع دیتے ہوئے اے ٹی ایم سے رقوم نکالنے میں صارفین کو درپیش مشکلات پر معذرت والے پیغامات بھیجے جارہے تھے ، مگر وہ جو کہتے ہیں کہ تاڑنے والے قیامت کی نظر رکھتے ہیں، تو سینہ بہ سینہ چلنے والی گزٹ میں لوگ ایک دوسرے کو بنکوں کے ویب سائٹس کے ہیک ہونے کی اطلاعات پہنچا رہے تھے تاہم ان اطلاعات کی تصدیق نہیں ہوسکی۔ بہرحال خبر یہ ہے کہ برطانیہ میں بنک کی غلطی نے راتوں رات لوگوں کے بنک بیلنس میں اضافہ کر دیا ، برطانوی میڈیا کے مطابق کرسمس کے موقع پر ہزاروں اکائونٹس میں موجود رقم میں اس وقت حیرت انگیز طور پراضافہ ہو گیا جب ایک بنک نے غلطی سے 75 ہزار اکائونٹس میں کل ایک کروڑ 30 لاکھ پائونڈ جمع کر ادیئے ، خبروں کے مطابق لوگوں سے پیسے واپس لینے کے لئے بنک کے عملے کو شدید دشواری کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ زیادہ تررقوم حریف بنک کے کھاتوں میں جمع کرائی گئی تھیں ،ایک بیان میں بنک کا کہنا تھا کہ افسوس ہے ایک تکنیکی مسئلے کی وجہ سے ہمارے کارپوریٹ کلائنٹس کی جانب سے کچھ ادائیگیاں وصول کنندگان کے اکائونٹس میں غلط طریقے سے دو مرتبہ کر دی گئیں ،بنک اپنی غلطی ٹھیک کرنے کے لئے دیگر بنکوں سے مل کر کام کر رہا ہے ۔ جہاں تک بنک کی غلطی کا تعلق ہے تو یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ جن کھاتوں میں رقوم کی منتقلی ہونی تھی ، ان کی لسٹ بنک کے کمپیوٹر میں ڈال کر ایسا لگتا ہے کہ متعلقہ آپریٹر نے ایک بار رقوم ایک ہی کلک سے دوسرے بنکوں میں منتقل کرنے کے بعد بھول چوک ہی میں دوبارہ بٹن دیا دیا ہوگا ، یوں ہر اکائونٹ میں رقم ایک بھر پھر منتقل ہو گئی ہوگی اور رقوم موصول کرنے والے یہ سمجھے ہوں گے کہ انہیں کرسمس کی خوشی میں باردگر یعنی جس طرح ہمارے ہاں عیدی دی جاتی ہے ”ہیپی کرسمس” کے طور پر خوش کردیا گیا ہے مگر بنک کو اپنی غلطی کا احساس ہونے کے بعد اب یہ رقوم واپس طلب کی جارہی ہے مگر اب تک متعلقہ اکائونٹ ہولڈروں نے یہ اضافی رقم ہڑپ بھی کرلی ہوگی یعنی کرسمس کے موقع پر خوب موج میلہ کیا ہوگا ، اس کے بعد ان کے اکائونٹس خالی ہو چکے ہوں گے تو واپسی کیسے ممکن ہو سکتی ہے جبکہ عین ممکن ہے کہ بنک اپنی رقوم کی واپسی کے لئے مقدمہ بازی پر اتر آئے ، مگر اس میں بھی 95 کا گھاٹا ہوگا کیونکہ انگلستان میں مقدمہ بازی اتنی سستی بھی نہیں ہے کہ ہزاروں اکائونٹس ہولڈروں کے خلاف وکلاء کی فیسیں بھی اتنی ہوں گی کہ بنک کے متعلقہ افراد کے ہوش ٹھکانے آجائیں گے اور اگر بنک مقدمہ ہار گیا تو مزید لاکھوں پائونڈ مع جرمانہ کے ادا کرنا پڑ سکتے ہیں۔ یوں صورتحال گویم مشکل وگرنہ گویم مشکل والی بن سکتی ہے ۔ ہاں اتنا ہے کہ اگر یہ واقعہ برطانیہ کی بجائے پاکستان میں پیش آیا ہوتا تو بنک کی جانب سے ایک تڑی سے ہی اضافی رقم وصول کرنے والوں کے پسینے چھوٹ چکے ہوتے اور ان کی اوپر کی سانس اوپراور نیچے ہی اٹک چکی ہوتی اور اگر کسی نے یہ رقوم خرچ بھی کی ہوتیں تو بے چارے قرض لے کر بنک کا نقصان پورا کرنے پر مجبور ہو رہے ہوتے ، اس سارے قصے میں اس بنک اہلکار کے بارے میں کچھ معلوم نہیں ہو سکا کہ اس کے ساتھ بنک نے کیا سلوک کیا جس کی ”غیر حاضر دماغی ” نے بنک کو ایک کروڑ تیس لاکھ پائونڈ کا نقصان پہنچایا ، اس کی ذہنی کیفیت کے بارے میں تو انور شعور نے کیا خوب نقشہ کھینچا ہے کہ
اچھا خاصا بیٹھے بیٹھے گم ہو جاتا ہوں
اب میں اکثر میں نہیںرہتا ‘ تم ہو جاتا ہوں
ہمارے ہاں ایک قانون(غالباً انگریزوں کے وقت سے) لاگو ہے جو خاص طور پر سرکاری ملازمین کے حوالے سے استعمال کیا جاتا ہے کہ اگر کسی کو ملازمت کے دوران تنخواہوںاور الائونسز کی مد میں اضافی رقم ادا کی جائے اور بعد میں سرکار اپنا حکم واپس لے تو اضافی رقم کی واپسی آسان نہیں رہتی اور اسی رقم کو the good faith In کے کھاتے میں شمار کرتے ہوئے واپس نہیں لیا جاتا ‘ اس حوالے سے آج کل وہ جو پیمرا کے سابق سربراہ سے ان کو تنخواہ اور الائونسز کی مد میں ادائیگی کی جا چکی ہے وہ اس زمرے سے بھی ماوراء معلوم ہوتی ہے کہ انہوں نے ڈیوٹی دی تھی جس کا معاوضہ(تنخواہ وغیرہ) ہونے کے ناتے ان کا معاوضہ اور حق بنتا ہے ، مگر سرکار ان سے وصولی پر ڈٹی ہوئی ہے ‘ تو یوں یہ جو بنک نے غلطی سے ایک کروڑ تیس لاکھ پائونڈ بنک اکائونٹس میں ٹرانسفر کر لی ہے اسے بھی ”دست خوشی” ہی قرار دیا جاسکتا ہے اور اکائونٹس ہولڈروں ے مفت ہاتھ آئے تو برا کیا ہے کے زمرے میں اسے ”بخوشی” قبول کرلیا ہو گا۔ تو پھر واپسی کیسی؟ اس سارے قصے میں ہم ویسے ہی خوشی میں”دل پشوری” کر رہے ہیں حالانکہ نہ اس میں ہمارا کوئی حصہ ہے اور نہ ہی اگر ہمیں ایسی کوئی رقم مل جائے تو اس کو اتنی آسانی سے ہضم کر سکتے ہیں کیونکہ ہمارا ہاضمہ اتنا مضبوط بھی نہیں کہ ”لکڑ ہضم پتھر ہضم” کے فارمولے پرعمل کرتے ہوئے ایسی کوئی رقم ہڑپ کر سکیں ، کیونکہ ہمارا بنکنگ نظام اتنا کمزور بھی نہیں بلکہ اس قدرمضبوط ہے کہ اگرغلطی سے کوئی رقم اکائونٹ میں منتقل ہوجائے تو متعلقہ بنک خود ہی پوچھے بغیر وہ واپس کاٹ کر حساب کتاب برابر کر دیتا ہے یعنی بقول جون ایلیائ
اس سے نبھے گا رشتہ سودوزیاں بھی کیا بھلا
میں ہوں بلا کا بدحساب ‘ اس کو حساب چاہئے