نہ تین میں نہ تیرہ میں

نہ تین میں نہ تیرہ میں

آج مجھے عرصہ بعد اپنے دفتر کا ایک بابو یاد آیا۔ اس نے ترقی کی خاطر جوں توں کرکے اردو میں ماسٹر کی ڈگری تو حاصل کر لی تھی مگر اُردو ادب سے اُسے دور کا بھی واسطہ نہ تھا۔ مجھے جب اپنے کام سے فراغت ہوتی تو مَیں لطف اُٹھانے کی خاطر اُس سے اردو اشعار ، محاورے اور فقرے سننے کی فرمائش کرتا۔ ایک دن اُسے کہا کہ ”اینٹ سے اینٹ بجانے” کو فقرے میں استعمال کرو۔ اُس نے فقرہ کچھ یوں ترتیب دیا کہ ”بھٹے پر مزدور اینٹوں کی مضبوطی دیکھنے کے لیے اینٹ سے اینٹ بجاتے رہتے ہیں”۔

اُس وقت یہ جملہ سن کر خوب ہنسی آئی۔ آج وہ بابو اور اس کا جملہ یاد آتے ہی سوچنے لگا کہ ضرب الالمثال اور محاورے بھی بڑے دلچسپ اور عجیب ہوتے ہیں۔ہر عہد میں لوگوں کے متعدد تجربات سے حاصل کیے گئے یہ الفاظ کچھ اس طور پہ بولے اور لکھے جاتے ہیں کہ اپنے ظاہری معنوں سے ہٹ کر کسی خاص موقع کی مناسبت پر اپنا مطلب بھی واضح کرتے ہیں اور منسوب شدہ کہانیاں بھی دہرا دیتے ہیں۔

یوں تو بہت سی کہاوتیں واقعاتی ہیں مگر اس ذخیرے میں محاوروں اور امثال کی ایک بڑی تعداد انسانی عقل اور تجربہ کی مرہونِ منت ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اور معروضی حالات کے پیش نظر بعض محاورے اپنے منطقی اعتبار سے غیر موزوں ہوتے جا رہے ہیں، جسے ذہن فوری طور پہ قبول نہیں کرتا۔ ہمارے مُلکی حالات اور معاشرتی روئیے بھی اس قدر بدل چکے ہیں کہ اب بہت سے محاوروں میں تبدیلی بھی ضروری ہو چکی ہے۔ سالہا سال سے استعمال ہونے والے محاوروں اور ضرب الامثال سے چند مثالیں پیش کرتا ہوں۔ ”جو چور کی سزا سو میری سزا” زبان زدِ عام ہے اور یہ اس وقت بولتے ہیں جب کوئی شخص اپنی کسی غلطی پر اپنے لیے بدترین سزا تجویز کرتا ہے۔ یہ معلوم نہیں کہ وہ کون سا وقت تھا جب چور کو بد ترین سزا دی جاتی ۔

اب تو جو کچھ سنائی دے رہا ہے ،لگتا ہے کہ یہ دنیا چوروں کے دم قدم سے آباد ہے۔ کوئی آٹا چور، کوئی چینی چور اور نہ جانے کیا کیا چیزیں چوروں کے ہاتھ میں ہیں۔ یہ خبر بھی آئے روزسننے کو ملتی ہے کہ کلیدی عہدوں پہ چور بیٹھے ہیں۔ اب تو کالے کپڑے پہن کر رات کو گھروں میں چوریاں کرنے والے چند ہی چور ہوں گے۔ کیونکہ اس کی ضرورت ہی نہیں رہی۔ میڈیا پہ روزانہ دیکھتے ہیں کہ اب کھلے عام بازاروں، دفتروںاور منڈیوں میں چوری ہو رہی ہے۔ چوروں کو پکڑنے کی بجائے اُن کا والہانہ استقبال کیا جاتا ہے۔ اُنہیں دیکھ کر تو اُن جیسا بننے کی تمنا ہوتی ہے۔ یہ محاورہ یوں ہونا چاہیے ‘جو شریف کی سزا سو میری سزا ‘ ۔ کیونکہ ہمارے ہاں شریف لوگوں کو سزائیں دی جا رہی ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: مرے کو مارے شاہ مدار

یہ بھی پڑھیں: ذمے دار بھی تم ہی ہو

جن دنوں مَیں سکول میں تھا تو بہت سی دکانوں میں ایک کیلنڈر آویزاں ہوتا، سب سے اوپر لکھا ہوتا ”نو نقد نہ کہ تیرہ ادھار”۔ اس کے نیچے ایک تصویر میں موٹا سا خوشحال آدمی سامنے نوٹوں کے انبار لگائے بیٹھا ہوتا اور اس کے ساتھ لکھا ہوتا ‘ نقد کا نتیجہ’۔ دوسری تصویر میں ایک مریل سا آدمی سر پکڑ کر بیٹھا ہوتا اور ارد گرد بہی کھاتوں کے انبار ہوتے، ساتھ ہی لکھا ہوتا ‘اُدھار کا انجام”۔ آج کل تو دنیا کا کاروبار ہی ادھار پر چل رہا ہے۔ کارخانہ دار قرض لے رہا ہے، تاجر اُدھار پہ کاروبار کر رہا ہے اور اپنا مُلک آئی ایم ایف کا قرض خواہ ہے۔ اب یوں کہنا چاہیے کہ” نو نقد سے تیرہ ادھار اچھے”۔ ایک اور محاورہ ہے کہ” ناچ نہ جانے آنگن ٹیڑھا”۔ یعنی جس محترمہ کو ناچنا نہیں آتا وہ عموماً بہانہ کرتی ہے کہ جگہ ٹھیک نہیں یا بال روم کا فلور ٹیڑھا ہے۔ ہمارے ہاں بہت سی اسامیوں اور اداروں پہ ا یسے افراد کو تعنیات کیا جاتا ہے جنہیں متعلقہ کام آتا ہی نہیں۔

اب یوں کہنا چاہیے کہ’ناچے وہ جو ناچ نہ جانے’۔ یہی وجہ ہے کہ مُلک میں فوری ضرورت کے ترقیاتی کام نہیں ہو رہے جبکہ بلا ضرورت کاموں پر خطیر رقم ہڑپ کی جارہی ہے۔ ایک مشہور مثل ہے” نہ تین میں نہ تیرہ میں”۔ اس کا پس منظریہ ہے کہ ایک نواب نے اپنے نوکرکو قیمتی تحائف دئیے کہ جا کر فلاںطوائف کو پیش کرنا مگر نام مت بتانا۔ صرف اتنا کہہ دینا کہ آپ کے خاص الخاص آدمی نے بھیجے ہیں۔ نوکر نے تحائف دے کر نواب کا پیغام دیا۔ وہ سوچ میں پڑ گئی کہ خاص الخاص کون ہو سکتا ہے۔

اس نے نوکر سے کہا کہ مَیں تین آدمیوں کے نام لیتی ہوں جو میرے خاص ہیں۔ تم نے بتانا ہے کہ وہ کون ہیں۔ طوائف نے تین نام گنوائے مگر اس میں نواب کا نام نہ تھا۔ اُس نے مایوس ہو کر مزید تیرہ آدمیوں کے نام گنوائے جو ذرا کم خاص تھے۔ اُن میں بھی نواب کا نام نہ تھا۔ طوائف نے تحفہ رکھ کر شکریہ کا پیغام بھیجا۔ نوکر واپس آیا تو بولا واہ نواب صاحب !آپ اچھے خاص الخاص آدمی ہیں ،’ ‘نہ تین میں ہیں اور نہ تیرہ میں”۔ اپنے مُلک میں چندطبقوں کو دیکھ کر یہی کہنا مناسب لگتا ہے کہ” تین میں بھی اور تیرہ میں بھی”۔ قیامِ پاکستان سے لے کر اب تک آپ کسی بھی حوالہ سے جائزہ لیں یا اصل حقائق کا مشاہدہ کریں تو یہ چند خاص الخاص طبقے تین میں بھی موجودہیں اور تیرہ میں بھی حاضر ہیں۔ عوام کی حیثیت تو نواب صاحب کی طرح تماش بینوں کی ہے۔