خنزیر کا دل

پاکستانی ڈاکٹر کا تاریخی کارنامہ، مریض کو خنزیر کا دل لگا دیا

واشنگٹن میں پاکستانی نژاد امریکی ڈاکٹر منصور محی الدین نے خنزیر کا دل انسانی جسم میں ٹرانسپلانٹ کردیا ہے۔

یونیورسٹی آف میری لینڈ میڈیکل سینٹر میں ہونے والی اس سرجری میں پہلی مرتبہ جنیاتی طور پر تبدیل شدہ خنزیر کا دل انسانی جسم میں ٹراسپلانٹ کیا گیا ہے جس میں کامیابی مل گئی ہے جبکہ یہ دل تین دن سے کامیابی سے دھڑک رہا ہے۔ انسان میں خنزیر کا جینیاتی طور پر تبدیل شدہ دل لگانے میں 1 کروڑ75 لاکھ روپے لاگت آئی ہے۔ ٹرانسپلانٹ کے بعد مریض کا کہنا تھا کہ آپریشن سے قبل پتا تھا کہ یہ رسک ہے لیکن ان کے پاس موت یا پھریہ ٹرانسپلانٹ کے سوا کوئی آپشن نہیں تھا۔

یہ بھی پڑھیں:ماں کے پیٹ میں بچے کے دل کا کامیاب آپریشن

ڈاکٹرمنصورمحی الدین کا تعلق کراچی سے ہے اورہ ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کے گریجویٹ ہیں۔ محمد منصور محی الدین زینو ٹرانسپلانٹیشن ریسرچ میں کارڈیک زینو ٹرانسپلانٹیشن پروگرام کے ڈائریکٹر ہیں جبکہ انہوں نے اپنی زندگی کے 30 سال یہ جاننے میں گزار دیے ہیں کہ ہارٹ ٹرانسپلانٹ کی ضرورت والے ٹرمینل مریضوں کے زندہ رہنے کے امکانات کو کیسے بڑھایا جائے۔ ڈاکٹر محی الدین منصور کا نجی ادارے سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ابتدائی تجربات میں بندر کا دل لگایا جاتا تھا لیکن بندر کا دل پیوند کاری کے لیے مفید ثابت نہ ہوا جبکہ خنزیر پر ہونے والا تجربہ خاصی کامیاب رہا ہے۔

مزید پڑھیں:  علی گڑھ یونیورسٹی میں 123 سال بعد خاتون وائس چانسلر تعینات

یہ بھی پڑھیں: چاند پر موجود پر اسرار گھر کی حقیقت کیا ہے

واضح رہے کہ 1984 میں امریکی سرجن لیونارڈ لی بیلی نے پیدائشی طور پر دل کی بیماری میں مبتلا بچے میں بیبون دل کی پیوند کاری کی تھی جسے بے بی فے کے طور پر جانا جاتا ہے جبکہ یہ بچہ سرجری کے عمل کے بعد 20 دن تک زندہ رہا تھا۔ درمیانی دہائیوں میں زینو ٹرانسپلانٹیشن کے میدان میں ہونے والی پیشرفت کی وجہ سے انسانی جسم میں جانوروں کے اعضا کو پیوند کرنے کا عمل نسبتاً زیادہ کامیاب رہا جبکہ اس عضو کے طویل عرصے تک کام کرنا ایک بڑا چیلنج تھا۔ زینو ٹرانسپلانٹیشن کی کامیابی میں رکاوٹ نے سائنسدانوں کو برسوں تک پریشان کیا جو 2014 میں امریکی تجربے کے بعد بدل گیا جبکہ اس تجربے میں بابون کے پیٹ سے جڑا ہوا ایک خنزیر کا دل تقریباً تین سال تک زندہ رہا تھا۔

مزید پڑھیں:  امریکہ کو پاکستان میں انسانی حقوق کی صورتحال پر تشویش