عرب میں نسوار پر پابندی

نسوار پر پابندی

عرب ممالک میں نسوار کو منشیات کی فہرست میں شامل کر لیا گیا ہے اور مشرق وسطیٰ کا سفرکرنے والے مسافروں کے لئے نسوار ساتھ رکھنا جرم قرار دیدیا گیا ہے ، اینٹی نارکوٹکس فورس(اے این ایف) کے مطابق مشرق وسطیٰ میں نسوار کو منشیات کی فہرست میں شامل کرلیا گیا ہے ، نسوار کے ساتھ عرب ممالک کا فضائی سفر جرم ہوگا ، کسی بھی مسافر سے نسوار برآمد ہوئی تو وہاں کے قانون کے مطابق سزا دی جائے گی۔ اپنے ساتھ نسوار لیجانے والوں کو خبردارکرنے کے لئے اے این ایف کی جانب سے ایئرپورٹس پر بینرز بھی آویزاں کر دیئے گئے ہیں۔ خدا جانے کب کس ترنگ میں آکر میں نے ایک شعرکہہ دیا تھا کہ
کیازمانہ تھا کہ ہر کوئی تھا رسیا پان کا
دل یہ مانگے مور ‘ اب نسوار ہونی چاہئے
حالانکہ پان بھی ایک لحاظ سے دیکھا جائے تو نشے کے طور پر بھی استعمال کیا جاتا ہے ، لفظ بھی کا استعمال ہم نے اس لئے کیا ہے کہ بے ضرر قسم کے پان بھی ہر کوئی کھا سکتا ہے ، البتہ بعض لوگ پان کے پتے پر لگائے جانے والے مسالوں میں کہیں کتھا زیادہ ، کہیں چونا زیادہ لگوا دیتے ہیں ، بچوں کو عموماً میٹھے پان کھانے کو دیئے جاتے ہیں ، الائچی اور خوشبو کا استعمال بھی عام ہے البتہ جولوگ اسے نشے کے لئے استعمال کرتے ہیں وہ پان والے سے کہہ کر اس میں تمباکو اور گنتی کے زیادہ نشئی کوکین کی سلائی پھیر کر اپنا نشہ پورا کرتے تھے ،(اب کا پتہ نہیں) مگرعجیب بات ہے کہ پان کی دکانیں برصغیر کے ہر شہر میں گلی گلی موجود ہیں ،ہاں اتنا ہے کہ پان کے پتے ، کتھا اورچھالیہ چونکہ بھارت سے آتا ہے اس لئے پاکستان میں ان اشیاء کی سمگلنگ ہی کی جاتی ہے اور شاید مشرق وسطیٰ سمیت دنیا بھر میں پان کی خرید و فروخت پر کوئی پابندی نہیں اس حوالے سے بھارت کے شہر بنارس کا پان اتنا مشہور ہے (وجہ نہیں معلوم) کہ اس پر ایک بھارتی فلم کا گانا بھی بہت مشہور ہے جو امیتابھ بچن پرفلمایا گیا ہے یعنی
کھائی کے پان بنارس والا
کھل جائے بند عقل کا تالا
بات نسوار سے چلتے چلتے بنارس کے پان میں جا کر اٹک گئی ،تاہم نسوار پرپابندی کا نظارہ کئی برس پہلے میں نے اپنے دورہ قطر میں کیا تھا ، جب میرے ایک کرم فرما فیروز آفریدی نے وہاں اردو سوسائٹی کے ایک مشاعرے میں مجھے دعوت دے کر بلوایا تھا ، ایک موقع پر ہم گاڑی میں جا رہے تھے تو فیروز آفریدی کو نسوارکی طلب ہوئی ، غلطی سے نسوار کی ڈبیا گھر ہی بھول آئے تھے ،گاڑی آہستہ کرکے سڑک کے ایک طرف کھڑی کرکے وہ آنے جانے والوں پر نظریں جمائے ہوئے تھے ، دور سے ایک شخص کو دیکھ کر انہوں نے کہا اس کے پاس نسوار ہونی چاہئے ،اور قریب آتے ہی جیسے ہی انہوں نے اس شخص کو سلام کر کے نسوار کی ایک ”چونڈی” طلب کی ، تو اس شخص نے بھی احتیاط سے ادھر ادھر دیکھ کر رازداری سے قمیض کے نیچے ہاتھ ڈال کر نسوار کی پڑیا نکال کر دی اور خاموشی سے روانہ ہوگیا۔ گویا قطر میں نسوار پرپابندی کئی برس سے لگی ہوئی ہے جسے اب تمام عرب ملکوں نے بھی نافذ کر دیا۔ اب نسوار کھانے والوںکا کیا بنے گا؟ یہ ایک ملین ڈالرکا سوال ہے ۔بقول صابرظفر
عجب اک بے یقینی کی فضا ہے
یہاں ہونا نہ ہوناایک سا ہے