صوابی میں خودکشی کے واقعات

صوابی میں خودکشی کے واقعات تشویشناک حد تک بڑھ گئے

چترال اور سوات کے بعد خیبر پختونخوا کے ایک اور ضلع صوابی میں خودکشی کے رجحان میں تشویشناک حد تک اضافہ ہوگیا۔ پاکستان کے مختلف علاقوں میں خودکشی کے مختلف رجحان پائِے جاتے ہیں اور ماہرین کے مطابق یہ رجحان اس علاقے کے معروضی حالات پر منحصر ہوتے ہیں۔ مختلف عناصر مل کر کسی عام شخص کو خود کشی جیسے اقدام پر مجبور کر سکتے ہیں۔ پاکستان میں خودکشیوں کے حوالے سے برطانوی نشریاتی ادارے نے ایک رپورٹ پیش کی ہے اس رپورٹ کے مطابق خیبر پختونخوا میں چترال، صوابی ، دیر اور بونیر کے علاقے ایسے ہیں ۔ جہاں گزشتہ کچھ عرصے کے دوران خودکشی کے زیادہ واقعات ہوئے ۔ چترال کی ضلعی پولیس افسر سونیا شمروز کے مطابق چترال میں خودکشی کے واقعات میں کافی اضافہ ہوا تھا لیکن پھر مقامی سطح پر اقدامات سے ان واقعات میں کمی لائی گئی ۔ سونیا شمروز کے مطابق انھوں نے چار تھانوں میں خواتین پولیس اہلکار تعینات کی ہیں جو مقامی سطح پر ایسے لوگوں کی ذہنی تربیت یا کونسلنگ کرتی ہیں جو حالات سے پریشان ہوتے ہیں۔اس کا اثر یہ ہوا کہ چترال میں سال 2018 میں خود کشی کے 21 واقعات رپورٹ ہوئے تھے جبکہ سال 2019 اور سال 2020 میں تیرہ تیرہ واقعات رپورٹ ہوئے تھے امید ہے آئندہ سالوں میں یہ تعداد کم ہو جائے گی۔ان کا کہنا تھا کہ بنیادی طور پر غربت، اور گھریلو مسائل کے علاوہ ازدواجی صورتحال اور گھریلو تنازعات کی وجہ سے بیشتر لوگ خود کشیاں کر لیتے ہیں اور ان میں خواتین بھی شامل ہیں۔ خیبر پختونخوا کے ضلع صوابی میں سال 2021 میں خودکشی کے کل 141 واقعات پیش آئے ہیں

مزید پڑھیں:  ملک بھر میں او لیول ، اے لیول کے سالانہ امتحانات کا شیڈول جاری

اور ان میں ایک بڑی تعداد خواتین کی ہے۔ صوابی میں خودکشیوں کی اتنی بڑی تعداد انتہائی پریشان کن ہے۔ حیران کن طور پر خودکشی کرنے والوں میں بیشتر نوجوان افراد ہیں۔ صوابی پولیس ریکارڈ کے مطابق ان میں نو خواتین ایسی ہیں جن کی عمریں 16 سال سے لے کر 25 سال تک بتائی گئی ہیں۔ 19 افراد ایسے ہیں جن کی عمر 16 سال سے لے کر 25 سال تک ہے۔ دو افراد کی عمریں 45 سال اور 55 سال بتائی گئی ہیں۔خودکشی کرنے والوں میں طالبعلم بھی شامل ہیں ۔ خودکشی کی کوشش کرنے والے افراد کی جان اگر بچ جائے تو انھیں پولیس اور عدالتی کارروائیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو نہ صرف اس شخص بلکہ اہلخانہ کے لیے مشکلات پیدا کر دیتا ہے۔ اسی لیے ایک رائے یہ بھی ہے کہ اگر خودکشی کو جرم کے دائرے سے نکال کرذہنی بیماری قرار دے دیا جائے تو ایسے واقعات میں اضافہ ہو سکتا ہے لیکن پاکستان سمیت دنیا میں صرف 20 ہی ایسے ممالک بچے ہیں جہاں خودکشی ایک جرم ہے۔

مزید پڑھیں:  پیسوں کی حاطر ہمیں جنگ میں دھکیلنے کی کوشش ہو رہی یے، ایمل ولی خان