نیلی زمین خطرے میں

نیلی زمین خطرے میں

ہمارا یہ نیلا سیارہ جسے ہم زمین بھی کہتے ہیں نظامِ شمسی میں ایک واحد سیارہ ہے جہاں پانی اور آب ہوا سمیت زندگی بھی موجود ہے۔ نا صرف یہ کہ یہاں زندگی موجود ہے بلکہ اس زندگی کے پاس ایک نایاب تحفہ بھی ہے جسے ”عقل”کہا جاتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ زندگی اس تحفے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے فلک میں موجود مزید ہماری ہی طرح نظامِ شمشی اور اس کے گرد گھومتے ہوئے سیاروں کا کھوج بھی لگانے میں لگی ہے۔ مگر ان سیاروں کی کھوج لگانے کا کیا فائدہ کہ یہی خلق انسانی اپنی ہی اس نیلی زمین کو اس کی اوسط عمر سے پہلے برباد کرنے پر تلی ہوئی ہے ؟نیشنل جیوگرافک کی ایک رپورٹ کے مطابق آج سے ہزاروں سال قبل زمین پر کاربن ڈائی آکسائڈ کی مقدار 280 ملین پر پارٹس تھی جو آج 480 ملین پر پارٹس تک پہنچ چکی ہے۔ اس میں سب سے زیادہ اضافہ اٹھارویں صدی میں صنعتی انقلاب کے بعد سے دیکھا گیا۔ اس اصافے کی سب سے اہم وجہ انسانوں کی جانب سے حجریہ ایندھن کے استعمال یعنی کوئلہ، قدرتی گیس اور خام تیل کا استعمال ہے۔ کیونکہ اس کے اخراج سے گرین ہاس گیسیں فضا میں شامل ہوکر اس سسٹم کو کمزور کردیتی ہے جو سورج کی تپش کو زمین پر آنے سے روکتی ہے۔ اسی رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ اٹھارویں صدی میں صنعتی انقلاب کے بعد سے اب تک جتنا حجریہ ایندھن استعمال کیا گیا ہے اس سے فضا کا ایک تہائی حصہ اب کاربن ڈائی آکسائڈ پر مشتمل ہوچکا ہے۔ یہ زمین کی درجہ حرارت کے لئے ایک خطرے کی گھنٹی ہے کیونکہ فضا میں جتنی گرین ہائوس گیسیس مضبوط ہونگی اتنا ہی زمین پر درجہ حرارت میں اضافہ ہوگا۔ اس کا پہلا فیز آج ہمیں دنیا میں ماحولیاتی تبدیلیوں کی صورت میں دکھائی دے رہا ہے۔ کینیڈا جیسا ملک جو قطب شمالی کے قریب واقع ہے اور جہاں سال کے بارہ مہینے برف کی چادر موجود ہوتی ہے آج اس ملک میں بھی ہیٹ ڈوم جیسی خطرناک لہر کے باعث درجہِ حرارت 50 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ چکا ہے جس کے باعث سینکڑوں کینیڈائی شہری لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ ایمازون اور آسٹریلیا کے گوسپر پہاڑوں میں موجود بڑے جنگلات آئے روز آگ کی لپیٹ میں ہوتے ہیں جس سے زمین کو آکسیجن فراہم کرنے کا ایک واحد ذریعہ جو درختوں کی صورت میں موجود ہیں وہ بھی ختم ہورہا ہے۔جہاں سورج کی تپش نے ٹھنڈے ممالک میں کہرام مچا رکھا ہے وہی اس کی حرارت سے گلیشیئرز مزید تیزی سے پگھل رہے ہیں جس کی وجہ بڑے پیمانے پر نا صرف سیلابوں اور سمندری طوفانوں میں اضافہ ہو رہا ہے بلکہ سطح سمندر میں بھی تیزی سے اضافہ دیکھنے کو آرہا ہے ۔ اگاراپ انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر روبرٹ مگاہ کے مطابق اگر درجہ حرارت میں ایک اعشاریہ سات سینٹی گریڈ کا اضافہ ہوگیا تو 2050تک 570 ساحلی شہروں کے ڈوبنے کا خطرہ ہے جس کی وجہ سے 80 کروڑ انسان ہجرت کرنے پر مجبور ہونگے۔ ان کے مطابق انڈونیشیا کا شہر جکارتہ ہی ایک دہائی سے بھی کم وقت میں 2.5 میٹر تک ڈوب چکا ہے۔ 1989 میں جاری کئے گئے اقوامِ متحدہ کی رپورٹ کے مطابق کِریبس (جو کہ بحر اوقیانوس میں واقع آتش فشائی ریت سے بنے چھوٹے چھوٹے جزائر پر مشتمل ملک ہے) وہ پہلا ملک ہوگا جو ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث 2030 تک مکمل ڈوب جائے گا۔ 1993 سے ہی یہ ملک ہر سال 2.3 فیٹ ڈوب رہا ہے جبکہ اس کے دو جزائر پہلے ہی اوقیانوس کی تہہ میں سما چکے ہیں۔پاکستان بھی ماحولیاتی تبدیلیوں سے براہ راست متاثر ہونے والے ممالک میں شامل ہے۔کراچی شہر جسے درمیانے درجہ حرارت والا شہر تصور کیا جاتا تھا اب وہاں ہر سال ہیٹ ویو ریکارڈ کیا جاتا ہے۔ اقوامِ متحدہ کی فریم ورک کنونشن برائے ماحولیاتی تبدیلی کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا کہ پاکستان کا ساحلی شہر کراچی بھی مستقبل میں شدید متاثر ہوسکتا ہے۔ طوفانی بارشوں اور سطح سمندر میں اضافے سے اس شہر میں بھی لوگوں کو مستقبل میں بڑے پیمانے پر ہجرت کرنا پڑ سکتی ہے جو پاکستان کے لئے خطرے کی گھنٹی ہے کیونکہ پاکستان کی تین اہم بندرگاہوں میں سے دو کراچی میں واقع ہیں۔ دوسری جانب جب ماحولیاتی تبدیلیوں سے فضا میں اوزون کے ذرات شامل ہوجاتے ہیں تو اس سے آلودہ دھند پیدا ہوتی ہے اور یہ دھند جسے اسموگ کہا جاتا ہے اب ہر سال شمالی پنجاب اور خیبر پختونخوا کو بھی اپنی لپیٹ میں لے رہی ہے۔ طبی طورپراسموگ سے انسانوں کو دمے اور پھیپھڑوں کے سرطان جیسی بیماریاں لاحق ہو سکتی ہیں جو اس خطے میں بسنے والے لوگوں کے لئے ایک اور پریشان کن بات ہے۔ اس کے علاوہ ہر سال سیلابوں کی مزید شدت اور کئی علاقوں میں خشک سالی کی وجہ سے ناصرف پاکستان کے کئی علاقوں میں فصلوں کی پیداوار اور پانی کے ذخائر میں کمی دیکھنے کو ملی ہے بلکہ اس سے بڑے پیمانے پر جانی و مالی نقصانات بھی دیکھنے کو ملے ہیں۔تو آخر اس دھرتی کو برباد ہونے سے روکنے کے لئے دنیا کے تمام لیڈروں نے اب تک کیا اقدامات اٹھائے ؟ 2015میں جب اقوامِ عالم کے تمام بڑے پیرس میں سر جوڑ کر بیٹھے اور یہ عہد کیا کہ وہ گرین ہاس گیسوں کے اخراج کو کم کریں گے تب وہ ملک(امریکہ)جو گرین ہائوس گیسوں کے اخراج میں دنیا کا تیسرا بڑا ملک ہے اس نے صاف صاف اس کا حصہ بننے سے انکار کردیا تھا جو بعدمیں بہرحال5سال بعد پیرس ایگریمنٹ میں شامل ہوگیا۔ مگر اس ایگریمنٹ سے اچھے نتائج تو بظاہر دیکھنے کو اب تک نہیں مل رہے بلکہ اس کے برعکس حال ہی میں جاپان نے اپنے فوکو شیما نیوکلیئر پاور پلانٹ سے ایک ملین ٹن ویسٹ واٹر کو سمندر میں خارج کرنے کا اعلان کیا جو ماہرین کے مطابق آبی حیات اور انسانی جانوں کے لئے پرخطر ثابت ہوسکتا ہے۔ دوسری جانب امریکہ جیسے بڑے ممالک نے ماحولیاتی تبدیلی جیسے سنگین مسئلے کو بھی سیاست کی نذر کیا۔ جس کی مثال حال ہی میں ماحولیاتی تبدیلی کے حوالے سے ایک آن لائن سمٹ میں پاکستان جیسے براہِ راست متاثر ہونے والے ملک کے وزیر اعظم کو سیاسی اختلاف کی وجہ سے مدعو نا کرنا تھا۔ تو ایسے میں کیسے زمین کو مزید تباہی سے بچایا جاسکتا ہے جس کے لئے کوئی بھی لیڈر سنجیدگی کا مظاہرہ ہی نہیں کر رہا۔ تاہم پاکستان کے موجودہ وزیراعظم نے خیبر پختونخوا میں ایک ارب درخت لگاکر ایک اچھی کاوش کا آغاز جسے بعد انہوں نے پورے پاکستان میں توسیع دیکر10ارب درخت لگانے کا اعلان کیا۔ مگر ان دس ارب درختوں کا بھی کوئی فائدہ نہیں ہوا کیونکہ جب ایک طرف آپ درخت لگانے کی بات کرتے ہوں اور دوسری طرف پہاڑی علاقوں میں سیاحت کو فروغ دیکر ماحولیات کو مزید انسانی فضلوں اور کچرے کے ڈھیر سے خراب کرنے میں لگے ہوتے ہو تو تب ماحولیاتی تبدیلیوں کو روکنا ممکن نہیں ہوتا۔ چنانچہ ہماری اس نیلی زمین کو تبھی تباہی کے دہانے پر جانے روکا جاسکتا ہے جب دنیا کے تمام لیڈر حقیقی طور پر اپنی سیاسی اختلاف بھلاکھر دھرتی ماں کے تحفظ کے لئے انقلابی اقدامات اٹھائے۔ تبھی ہماری یہ نیلی زمین نیلی رہ پائے گی۔