جنم جنم کے نیرو اور جلتاروم

جنم جنم کے نیرو اور جلتاروم

اپوزیشن جماعتیں ایک بار پھر نئے انداز سے حکومت پر حملہ آور ہیں۔اس بار اس کا جواز منی بجٹ یا نیا اقتصادی بل ہے ۔یہ بل آئی ایم ایف کی نئی قسط کے لئے پیش کی جانے والی شرائط کے تحت تیار کیا گیا ہے ۔اس بل سے مہنگائی کا ایک اور سیلابی ریلا سارے بند توڑکر گزرنے کو تیار ہے ۔نئے مالیاتی بل کی منظوری چند قدم کی دوری پر ہے اورمہنگائی کاجن پہلے ہی دندناتا پھررہاہے۔ اپوزیشن جماعتیں اس صورت حال سے فائدہ اُٹھا کر حکومت کا دھڑن تختہ کرنے کی تدابیر سوچ رہی ہیں ۔پیپلزپارٹی لانگ مارچ کی تیاریاں کر رہی ہے تو مسلم لیگ ن ان ہائوس تبدیلی کے لئے سوچ وبچار کر رہی ہے ۔کبھی مسلم لیگ ن مارچ کراتی ہے اور عوامی احتجاج کے ذریعے دیسی ساختہ انقلاب برپا کرنے پر یقین رکھتی اور پیپلزپارٹی ایوان کے اندر جمع تفریق کرکے تبدیلی کے اندر سے تبدیلی کی فلاسفی اپناتی ہے تو کبھی سوچیں او رکردار بدل جاتے ہیں ۔اب آصف زرداری نے ایک بار پھر پی ڈی ایم میں واپسی کو خارج ازامکان قرار دیا ہے ۔اپوزیشن کے دونوں دھڑے مل جائیں تو واقعی تبدیلی کے اندر سے تبدیلی برآمد ہو سکتی ہے۔دونوں دھڑے اچھے بھلے پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم پر متحد تھے اور قریب تھا کہ دونوں میثاق جمہوریت کے جذبے کے تحت کوئی انقلاب برپا کریں مگر پھر کراچی میں مزار قائد پر کیپٹن صفدر کی نعرے بازی سے شروع ہونے والے خاموش بحران نے اپوزیشن کے تناور درخت کو اندر سے کھوکھلا کرنا شروع کیا۔گلگت بلتستان کی انتخابی مہم زوروں پر تھی ۔گمان تھا کہ مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی اس الیکشن میں پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے کوئی مشترکہ معجزہ دکھا ئیں گی ۔کراچی ہوٹل سے کیپٹن صفدر کی گرفتاری پر بلاول منقازیر پا تھے کہ اچانک ایک ٹیلی فون کال نے ان کا رخ کراچی سے گلگت موڑ دیا ۔وہ چترالی ٹوپی اور چغہ پن کر برف پوش وادیوں میں انتخابی مہم کو گرماتے رہے ،دریائی جلسوں سے خطاب کرتے رہے پیچھے پی ڈی ایم کا گرم محاذ سوُنا اور بے رونق ہوتا چلا گیا ۔مریم نوازبھی ان کے پیچھے پیچھے گلگت کی مہم میں سرگرم ہوئیں ۔ نئی نسل کے دونوں راہنمائوںمیں گلگت کی یخ بستہ شام کو میثاق جمہوریت کی تجدید کے انداز میں ملاقات کا فوٹو سیشن بھی ہوا مگر پی ڈی ایم کی جو اُلٹی گنتی شہر قائد سے شروع ہو چکی تھی بعدمیں رک نہ سکی ۔پیپلزپارٹی نے اقتدار کی راہداریوں میں قدم رکھنے کا فیصلہ اسی انداز میں کیا تھا جس طرح میثاق جمہوریت کے باوجود دوبئی میں جنرل مشرف کے ساتھ مذاکرات کا سلسلہ شروع کیا گیا تھا اور پیپلز پارٹی کے مرحوم راہنما جہانگیر بدر اپنے روایتی انداز میں جنرل مشرف کے ساتھ مذاکرات کی تردید کرتے ہوئے اگلے ہی لمحے کہتے تھے کہ مذاکرات تو نہیں البتہ ڈائیلاگ ضرور ہورہے ہیں پھر وہ ٹی وی ناظرین اور اینکرز کو مذاکرات اور ڈائیلاگ کا فرق سمجھانے میں باقی وقت صرف کرتے تھے ۔یہ ڈائیلاگ تھے یا مذاکرا ت مگر یہ بات طے ہے کہ اسی عمل سے پیپلزپارٹی نے نہ صرف یہ کہ اپنے لئے اقتدار کے راہوں کے بند پھاٹک کھلوادئیے تھے بلکہ مسلم لیگ ن بھی انہی راستوں سے استفادہ کرنے میں کامیاب ہو ئی تھی ۔اب بھی مسلم لیگ کا شوق ِانقلاب اور جوش انتقام ٹھاٹھیں مار رہا ہے مگر پیپلزپارٹی”چشمہ یہیں سے نکلے گا ” کے یقین واعتماد کے ساتھ راولپنڈی کی راہوں میں اپنے لئے راستے بنانے کی کوششوں میں مگن ہے۔فنانس بل کے بعد عوام کے جذبات مزید بھڑک اُٹھیں گے اور بکھری ہوئی اپوزیشن جماعتیں اس صورت حال میں لوہا گرم سمجھ کر اپنا وار کرنے کی کوشش کریں گے ۔اپوزیشن کی طرف سے برپا گرماگرمی کے دوران حکومت کی ایک اور بے تدبیری سامنے آئی مگر اس بے تدبیری کی جڑیں ہمارے قومی مزاج میں دور تک دھنسی ہوئی ہیں۔کچھ حکومت کی ناقص حکمت عملی اور کچھ اخلاقیات سے عاری مافیاز کی کارستانیوں نے مل کرمری کی تفریح گا ہ کو مقتل بنا ڈالا۔اس طرح کے حادثات کو روکنے اور پھر ان کی شدت کم کرنے کے لئے کوئی سسٹم بنایا نہیں جا سکا ۔زلزلوں ،سیلابوں ،آتشزدگی سمیت دیگر آفات سے ہم نے سبق نہ سیکھنے کی قسم کھا رکھی ہے البتہ ان حادثات سے ہم پید اگیری کے فن میں مہارت کی ایک اور سیڑھی چڑھ جاتے ہیں۔اس پر ایک دلچسپ تبصرہ قائدحزب اختلاف شہباز شریف نے کیا ہے ۔ان کا کہنا تھاکہ روم جل رہا تھا مگر نیرو گھر میں سو کر چین کی بانسری بجا رہا تھا ۔بہت اچھا محاورہ ہے مگر یہ اس ملک کے حکمرانوں کی پالیسیوں پر ہزارہا بار بولا اور لکھا گیا ہے ۔مجھے یاد پڑتا ہے کہ1991سے جب میں نے بھی سیاسی اور قومی معاملات پر لکھنے کا آغاز کیا تو نوے کی دہائی میں پانچ سو سے ایک ہزار بار یہ محاورہ استعمال کیا ہوگا اور وہ بھی حادثات اور تلخ واقعات کے بعد حکمرانوں کی بے حسی پر ۔نوے کی دہائی میں خداجانے کون حکمران تھا؟یہ محاور ہ اگر مزدور کسان پارٹی ،اپنی پارٹی ،عام آدمی پارٹی ٹائپ کوئی نئی نویلی جماعت استعمال کرے تو طنز کا لطف دوبالا ہوجائے مگر اس ملک میں کسی سسٹم کو فروغ اور رواج دینے سے گریز کرنے والے حکمران طبقات کسی دوسرے کو نیرو کہیں تو بات بنتی نہیں۔ہم سب اپنے اپنے دور کے نیرو ہیں اور ہمار ے عام آدمی کا، ماجے گامے کاروم بھی ہر دور میں یونہی جلتا رہا ہے اور دُور اقتدار کے جزیروںاور الگ تھلگ دنیائوں سے بانسریوںکی مدھر آوازیں یونہی کانوں میں رس گھولتی رہی ہیں۔

مزید پڑھیں:  کہ دیکھنا ہی نہیں ہم کو سوچنا بھی ہے