بروقت فیصلے اقدامات میں ناکامی

بروقت فیصلے اور اقدامات میں ناکامی بڑا مسئلہ

وزیر اعظم عمران خان نے ہدایت کی ہے کہ منافع خوروں ‘ذخیرہ اندوزوں کے ساتھ کوئی نرمی نہ برتی جائے وزیر اعظم کو پنجاب ‘ خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں کھاد کی قلت کے حوالے سے خاص طور پر آگاہ کیا گیا اور بتایا گیا ہے کہ کھاد کی ذخیرہ اندوزی ربیع سیزن کے لئے فصل کی پیداوار کو بری طرح متاثر کر سکتی ہے یوریا کی قلت سے متعلق بھی افواہیں پھیلائی جارہی ہیں ۔ امر واقع یہ ہے کہ ربیع سیزن کے آغاز سے قبل بھی ملک بھر میں یوریا کھاد کی ناپیدگی کی اطلاعات آنا شروع ہوگئی تھیں ۔ کھاد کی سمگلنگ اور بلیک مارکیٹنگ بھی کوئی پوشیدہ امر نہیں لیکن اس کے باوجود کابینہ کے اجلاس میں حیرت انگیز طور پر یہ دعویٰ کیاگیا کہ ملک میںکھاد کی کوئی قلت نہیں اور یہ حکومت کو بدنام کرنے کی کوشش ہے لیکن دلچسپ امر یہ ہے کہ ایک جانب قلت اور کھاد کی ذخیرہ اندوزی کو تسلیم نہیں کیا گیا مگر دوسری جانب اقتصادی رابطہ کمیٹی نے چین سے پچاس ہزارمیٹرک ٹن یوریا کھاد درآمد کرنے کی منظوری دے بھی ڈالی جسے اگرتاخیرسے کئے گئے اقدام کے باعث لاحاصل اور بے وقت فیصلہ قرار دیا جائے تو غلط نہ ہو گا اس کے لئے ربیع کے فصلوں بالخصوص گندم کی بوائی کا وقت گزر چکا تھا جس کے باعث یہ خدشہ پیدا ہو گیا ہے کہ رواں سیزن گندم کی پیداوار کا ہدف شاید ہی حاصل ہو سکے۔ واضح رہے کہ اس بار ہدف کو بھی بڑھا کر تین کروڑ ٹن کر دیاگیا ہے جبکہ گزشتہ سیزن میں دوکروڑ 73لاکھ ٹن کا ہدف تھافطری امر یہ ہے جب گندم کے کاشت کے وقت کاشتکاروں کو مقررہ نرخ پر کھاد جیسی بنیادی ضرورت دستیاب نہ ہو سکے تو اس کے منفی اثرات کا جلد ہی سامنے آنا فطری امر ہو گا ہمارے ملک کا شمار ویسے بھی خوراک کی قلت کا شکارممالک میں ہوتا ہے ایسے میں اگر ضرورت کے مطابق گندم نہ اگائی جا سکی اور ہدف پورا نہ ہو سکا تو آنے والے دنوں میں گندم اور آٹے کی قلت ان کے نرخوں میں اضافے اور گندم کی درآمد پر قیمتی زرمبادلہ خرچ ہونے کی صورت میں ملک کو مزید مشکل کا سامنا کرنا پڑے گا۔حکومت اگر کھاد کی پڑوسی ملک افغانستان کو سمگلنگ روک پاتی تو شایدملک میں کسانوں کو کھاد کی وافرمقدار دستیاب ہونا یقینی ہوتا ۔ دیکھا جائے تو بروقت اقدامات اور فیصلے مسائل کے ازالہ اور ان میں ناکامی مسائل کا باعث بنتا ہے اس طرح کی خامیاں بار بار سامنے آنا خود حکومت کی ساکھ کے لئے کوئی خوشگوار امر نہیں کوشش کی جائے کہ بروقت اقدامات اور فیصلے کئے جائیں تاکہ عوام کی مشکلات میں کمی اگر نہ لائی جاسکے تو اس میں اضافہ کا باعث بھی نہ بنا جائے ۔
وزارت قانون کا احسن اقدام
اسلام آباد کے مشہور عثمان مرزا کیس میںمتاثرہ لڑکی کے منحرف ہونے کے بعد ریاست کا اس کیس میں مدعی بن کر ملزمان کو قرار واقعی سزا دلانے کی سعی اچھا فیصلہ ہے ۔وزارت قانون کے اجلاس میں ٹھوس شواہد اور حقائق عدالت کے سامنے پیش کرنے کے اقدام کے بعد اس طرح کے واقعات کے ملزموں کی جانب سے متاثرہ فریق کو ڈرا دھمکا کر لالچ دے کر یا اور بدنام کرنے جیسے بلیک میلنگ کے حربوں کا سہارا لے کر مقدمے سے دستبردار اور بیانات بدلنے پر مجبور کرنے جیسے مساعی کی روک تھام ممکن ہوسکے گی۔ یہ صرف اسلام آباد کے محولہ کیس ہی میں نہیں ہو رہا ہے بلکہ اس طرح کی ملک بھر میں مزید مثالیںملتی ہیں اس طرح کے دبائو پر مبنی اقدامات کی روک تھام کے حوالے سے وزارت قانون کے اجلاس کا مناسب فیصلہ ہے جس پر عملدرآمد سے اس طرح کے واقعات کی روک تھام ہوسکے گی متاثرہ فریق سے ساز باز کے باوجود بھی ملزموں کو ریاست فریق بن کر سزا دلوائے تو تب ہی وہ عبرتناک انجام سے دو چارہوںگے اور دوسرے عبرت حاصل کریںگے۔
حکومتی پالیسیاں یا مذاق؟
سوات میں باغات اور آبی زرعی جائیداد کی ایکوزیشن زرعی اقتصادی پالیسی 2002 اور موسمیاتی تبدیلی کی پالیسی 2012 کی خلاف ورزی قرار دے کر عدالت سے رجوع اس امر کا واضح اظہار ہے کہ محولہ دونوں پالیسیوں کی صریح خلاف ورزی ہو رہی ہے جس کے خلاف لوگ عدالت سے رجوع کرنے پر مجبور ہوئے دیکھا جائے تو یہ پورے صوبے میںایسا ہو رہا ہے حکومت ایک جانب پالیسی ترتیب دیتی ہے اور دوسری جانب خود ہی اس کی خلاف ورزی کی مرتکب ہوتی ہے جس کی دیکھا دیکھی دیگر عناصر بھی حکومتی پالیسیوں کو مذاق بنا دیتے ہیں۔بہتر ہو گا کہ محولہ بنیادی اہمیت کی حامل دونوں پالیسیوں پر صوبہ بھر میں عملدآرمد پوری طرح یقینی بنایا جائے اور لوگوںکو عدالت سے رجوع کرنے پر مجبور نہ ہونا پڑے۔

مزید پڑھیں:  موت کا کنواں