بروقت فیصلے اقدامات میں ناکامی

سیاحت کا فروغ اور درپیش خطرات

وطن عزیزمیں سیاحت کے مواقع اور فروغ کے حوالے سے وزیراعظم عمران خان کا عزم اور خیالات کسی سے پوشیدہ نہیں۔ مری میںشدید برف باری کے باعث سیاحوں کی بائیس گھنٹے بے یارومددگار برف میں پھنس کر جاں بحق ہونے کے بڑے واقعے کے بعد سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا پاکستان سیاحت کے لئے محفوظ ملک ہے جہاں سیاحوں کو خطرات سے بچانے کے انتظامات کے ساتھ ساتھ مناسب سہولیات بھی موجود ہیں بھی یا نہیں؟۔پاکستان میں فطری سیاحت ‘موسمی سیاحت ‘تاریخی مقامات کی سیاحت اور مذہبی سیاحت سمیت سیاحوں کی دلچسپی کے لئے مختلف ثقافتی اورروایتی کھیلوں سے لطف اندوز ہونے کے درجنوں مواقع موجود ہیں۔حکومت کی جانب سے سیاحت کے فروغ کے لئے اقدامات کا جتنا بھی پروپیگنڈہ کیا جائے ذرا سی مشکل پیش آئے تو حکومتی دعوئوں کا ایسا پول کھل جاتا ہے کہ کوئی توجیہہ پیش کرنا بھی مشکل ہوتا ہے ۔وطن عزیز میں جہاں جہاں بھی معروف سیاحتی مقامات ہیں اس کا ایک حصہ سرے سے سیاحوں کے لئے شجر ممنوعہ بنایا جا چکا ہے جبکہ مقامی افراد کے لئے بھی یہ نو گوایریاز ہیں۔بہرحال وطن عزیز میں سیاحت کے شعبے کو نائن الیون کے واقعے کے بعد کے حالات اور صورتحال سے جو دھچکا لگا تھا اس دھچکے سے ابھی تک سیاحت نہیں نکل سکی ہے۔ نائن الیون سے قبل صوبائی دارالحکومت پشاور کے بازاروں اور مختلف مقامات پرغیر ملکی سیاحوں کی جو ٹولیاں نظر آیا کرتی تھیں پاک افغان بارڈرہو یا دوسرے سرحدی مقامات سیاحوں کی بھرمار نظر آتی تھی جو نائن الیون کے واقعات سے لے کر اب تک نظر نہیں آئی اگر یہ کہا جائے کہ جس طرح اس واقعے کے بعد دنیا ہی تبدیل ہو گئی اس سے کہیں زائد تبدیلی اور منفی اثر خیبر پختونخوا کی سیاحت پرپڑا ہے تو حقیقت حال کی وضاحت ہو گی۔ غیرملکی سیاحوں کے حوالے سے خیبر پختونخوا اب بھی شایدمقامات ممنوعہ کی فہرست میں شامل ہے اور مزید کتنا عرصہ یہ کیفیت رہتی ہے اس حوالے سے کچھ نہیں کہا جا سکتاخیبر پختونخوا کے کسی علاقے کو غیر ملکی سیاحوں کے لئے پرامن اور پرکشش قراردیا جائے توضلع چترال سرفہرست نظرآتا ہے وہاں جانے والے سیاح بھی خیبرپختونخوا آنے یا یہاں سے گزرنے کی بجائے اسلام آباد سے براہ راست چترال کی پرواز سے سفر کرتے ہیں اور چترال کی سیاحت کے بعد یا تو چترال سے واپس اسلام آباد روانہ ہوتے ہیں یا پھر چترال سے گلگت اور شمالی علاقہ جات چلے جاتے ہیں اور وہاں سے ان کی منزل واپس اسلام آباد ہی ہوتی ہے علاقے کا پرامن ہونا اور مقامی باشندوںکے حوالے سے اچھے تاثرات کے باعث سیاح خود کو محفوظ سمجھ کر یہاں کا رخ کرتے ہیںلیکن ان تمام امور کے باوجود اگر دیکھا جائے تویہاں پر سیاحوں کو کوئی سہولت میسر نہیں سڑکیں ہوں یا ٹھہرنے کے مقامات سیلاب کے باعث مشکلات میں گھرجانایا برف باری کے موسم میں کسی متوقع صورتحال کا سامنا ہوسیاحوں کے تحفظ اور انخلاء کا کوئی بندوبست نہیں۔اسی طرح سوات ‘ دیر ‘ کمراٹ اور دیگرعلاقوں میں بھی پہاڑی علاقوں کی سیاحت کے شوقین افراد کے لئے بنیادی سہولتوں کا فقدان کوئی پوشیدہ امر نہیں۔ سیاحت کے فروغ کے لئے جو کم سے کم سہولیات اور بنیادی شرائط ہونی چاہئے جائزہ لیاجائے تو وہ بھی موجود نہیں ہوتیں۔غیرملکی سیاحوںکی ترجیحات تھوڑی سی مختلف ہوسکتی ہیں جن سے قطع نظر اگر مجموعی طور پر دیکھا جائے تو مقامی سیاحوں کے لئے بھی ان علاقوں تک رسائی حاصل کرنے کے لئے حکومت کی جانب سے ٹرانسپورٹ جیسے بنیادی ضرورت ہی کا بندوبست موجود نہیں ایسے میں سیاحت بہت مہنگا شوق بن جاتا ہے ۔اس کے ساتھ ساتھ کھانے پینے کی اشیاء کی کئی گنا اضافی قیمتیں اور مہنگائی بود باش کی سہولتوں کا ناپید ہونا جیسے مسائل کے باعث پہاڑی علاقوں تک رسائی عام طور پر ممکن نہیں ہوتی صرف شوق کے مارے نوجوان ہی ان مقامات تک پہنچ پاتے ہیںاور کیمپ لگا کر دن دودن ٹھہر پاتے ہیں۔ان تمام مشکلات کے باوجود خیبرپختونخوا میںسیاحت کے فروغ میں اضافہ ہی ہوا ہے عید اور جشن آزادی کے موقع پر چترال ہو یا گلیات ‘ کمراٹ ہو یا وادی کاغان ہر جگہ رش کے باعث جگہ کم پڑ جاتی ہے اور لوگ سڑکوں پر رات گزارتے ہیں ان تمام حالات و صورتحال میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا پاکستان ایک بین الاقوامی سیاحت مرکز بننے کے لئے تیار بھی ہے؟ کیا حکومت اور انتظامیہ کو سیاحت کے شعبے کو درپیش مسائل کا ادراک بھی ہے کم از کم عدم توجیہی کا شکار سڑکوں دریائوں اور ندیوں کے کنارے آلودگی پھیلانے والے غیرقانونی تعمیرات پارکنگ کی کمی ہوٹل اور ٹرانسپورٹ مافیا جیسے بڑے مسائل کے حل پر ہی توجہ دی جائے تو غنیمت ہو گی مسائل کئی ہیں ایجنٹ مافیا اور سیاحوں کو مشکلات کا شکار بنا کران سے اضافی رقم لینے والوں کی بھی کمی نہیںگندگی کا ڈھیر اور ٹرانسپورٹ کے فقدان کی شکایت اکثر سیاحوں کو ہوتی ہے بلاشبہ پاکستان ایک خوبصورت ملک ہے مگر یہاں سیاحتی مقامات پرجس طرح توجہ کی ضرورت ہے وہ نظر نہیں آتی سیاحت کے شعبے سے سینکڑوںافراد وابستہ ہیں اس شعبے میں سرمایہ کاری کے مواقع بھی موجود ہیں ان حالات میں حکومت کو چاہئے کہ وہ سیاحت کے شعبے کو صنعت کا درجہ دے اور سرمایہ کاروں کو سرمایہ کاری کے بہتر مواقع اورتحفظ فراہم کیا جائے ‘ ٹیکس میں رعایت دی جائے ‘ سیاحوں کی معلومات اور ان کو سہولیات سے آگاہ کیاجائے اور خاص طور پر ان کو اس امر کا عملی طور پر احساس دلانا چاہئے کہ مشکل حالات میں ان کی فوری مدد یقینی بنائی جائے گی۔سیاحتی مقامات تک رسائی حاصل کرنے کے لئے انفراسٹرکچر اور بنیادی لوازمات پر توجہ دینے میں مزیدتاخیر نہیں ہونی چاہئے اور خاص طور پر سانحہ مری جیسے واقعے کے آئندہ رونما نہ ہونے دینے کی بھر پور تیاری ہونی چاہئے۔

مزید پڑھیں:  ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کی حکمرانی