سرمنڈھاتے ہی اولے پڑے

سرمنڈھاتے ہی اولے پڑے کے مصداق منی بجٹ کی منظوری کے ساتھ ساتھ نہ صرف بجلی چار روپے تیس پیسے فی یونٹ مہنگی کر دی گئی ہے بلکہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ملکی تاریخ کا سب سے زیادہ اضافہ بھی ہونے جارہا ہے ۔ اہم پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں آئندہ دو ہفتوں کے لیے6روپے 30 پیسے فی لیٹر تک اضافے کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔ جس کی بنیادی وجہ تیل کی بین الاقوامی قیمتوں میں اضافہ ہے۔ اگر حکومت عوام پر مہنگائی کا دبائو کم کرنے کا فیصلہ کرتی ہے تو پٹرولیم مصنوعات پر سیلز ٹیکس کو قدرے کم کر سکتی ہے لیکن اس کا زیادہ تر انحصار 6ارب ڈالر کے پروگرام کی بحالی کے لیے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف)کے ساتھ رابطوں پر ہوگا۔حالیہ مہینوں میں حکومت آئی ایم ایف کے ساتھ ہوئے مذاکرات کے حصے کے طور پر ہر پندرہ روز کی بنیاد پر پیٹرولیم لیوی اور جنرل سیلز ٹیکس(جی ایس ٹی)میں اضافہ کرتی آئی ہے۔لیوی ہر ماہ کی پہلی تاریخ کو 4روپے تک بڑھتا رہے گا جب تک کہ یہ زیادہ سے زیادہ 30روپے فی لیٹر تک نہ پہنچ جائے اور پرائس کشن کے لحاظ سے ہر مہینے کی 15 تاریخ کو جی ایس ٹی ایڈجسٹمنٹ کی جائے گی۔ضمنی بجٹ کی منظوری کے روز ہی بجلی کے نرخوں میں بے تحاشا اضافہ اور تیل کی قیمتوں میں ممکنہ اضافہ سترہ فیصد جی ایس ٹی کے علاوہ وہ بوجھ ہے جو عوام پر لادا گیا ہے اس امر کے اعادے کی ضرورت نہیں کہ بجلی اور تیل کی قیمتوں میں اضافہ بذات خود مہنگائی کا طوفان لانے کا باعث امر ثابت ہوتا رہا ہے ستم بالائے ستم یہ کہ بجلی اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کر دیا گیا ہے جس میں منی بجٹ کے اثرات کے باعث مزید مہنگائی درمہنگائی ہونا تقریباً یقینی ہے گو کہ گزشتہ ادوار حکومت میں بھی مہنگائی ہوتی رہی ہے بجلی ‘ گیس اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے بھی ہوتے رہے ہیں منی بجٹ بھی لائے گئے ہیں لیکن جس طرح موجودہ دور میں ہر طرف سے عوام پر بوجھ لادنے اور ان کو نچوڑنے کی مساعی ہو رہی ہیں اس کی مثال نہیں ملتی حکومت بجلی ‘ تیل ‘ خوراک اور دیگر اشیایہ ضروریہ کی مہنگائی کے ذریعے جس طرح معاملات کو آگے بڑھانے کی سعی میں ہے اس سے عوام روز بروز حکومت سے متنفر ہوتے جارہے ہیں عام آدمی تو روز اول سے ہی حکومتی پالیسیوں سے نالاں ہے اب تو حکومت کے حامی اور اراکین بھی حکومت سے اختلاف کا برملا اظہار کر رہے ہیںاندریں حالات اور حکومت کی عوامی مسائل کے حل میں ناکامی کا تاثر پختہ ہو رہا ہے یہی صورتحال رہی تو عوام کو جب بھی موقع ملا وہ اپنے ناپسندیدگی کا اظہار کرنے میں زرا نہیں سوچیں گے اور حکومت کو بھاری قیمت ادا کرنا پڑے گی۔
ضم قبائلی اضلاع کے حقوق کا معاملہ
خیبر پختونخوا حکومت کی جانب سے قبائلی اضلاع کے حصے کی قومی محاصل میں تین فیصد حصے کے حصول کے لئے حکومتی اراکان اسمبلی اور حزب اختلاف کے اراکین کے جرگے کی تشکیل جلد سے جلد ہونی چاہئے دیکھا جائے تو اس میں پہلے ہی بہت تاخیر ہو چکی ہے جس کی گنجائش نہیں تھی۔ خیبر پختونخوا کی حکومت ظاہر ہے پہلے ہی قبائلی اضلاع کو خطیر رقم دے رہی ہے جبکہ پنجاب میں تحریک انصاف کی حکومت ہے بلوچستان کی حکومت میں بھی تحریک انصاف شامل ہے ایسے میں تین صوبوں کا اتفاق رائے مشکل نظر نہیں آتا مذکورہ صوبوں کے لئے وزیر اعظم عمران خان کی ایک ہدایت ہی کافی ہونی چاہئے جس کے بعد سندھ حکومت سے مذاکرات اور جرگہ کی راہ بہتر طور پر ہموار ہو گی تین صوبوں کی جانب سے عملی طور پر این ایف سی ایوارڈ کے تین فیصد حصہ دینے پر رضا مندی کے بعد سندھ حکومت کے پاس رد و کد کا زیادہ موقع نہیں رہے گا ہمارے تئیں جرگہ دیگر صوبائی حکومتوں سے رابطے سے قبل وزیر اعظم عمران خان سے ملاقات کرکے کردار ادا کرنے کو کہے تو یہ زیادہ موثر اور کم وقت میں ممکن ہو گابہرحال قومی محاصل میں تین فیصد حصہ قبائلی اضلاع کے عوام کا حق ہے جسے بلاتاخیر خیبر پختونخوا کی حکومت کو ادائیگی شروع ہونی چاہئے ۔
نقصان طلبہ کا ہی ہے
صوبے کے مختلف علاقوں میںسکول کی عمارت کی تعمیر کے لئے مالک اراضی سے سرکاری ملازمت کے حصول کے وعدے پر مفت زمین حاصل کرکے بعد میں محکمہ تعلیم کی جانب سے معاہدے سے مکر جانے کی شکایات میں اضافہ ہو رہا ہے مندنی میں گورنمنٹ پرائمری سکول کو مالک کی جانب سے تالہ لگانے سے طلبہ کا متاثر ہونا سنگین معاملہ ہے ۔ فریقین کے درمیان کیا طے ہوا تھا ‘ کس نے خلاف ورزی کی اور مسئلہ کیا ہے اس سے قطع نظر سکول کی بندش سے طلبہ کے تعلیم کا حرج بڑا نقصان ہے اس طرح کے واقعات سے بچنے کے لئے واضح پالیسی اختیار کی جائے اور اس پر عملدرآمد یقینی بنا کر سکولوں کو بند کرنے کی نوبت نہ آنے دی جائے ۔

مزید پڑھیں:  سانحہ قصہ خوانی اور ا نگریزوں کا کردار