بس یہی وقت ہے سچ منہ سے نکل جانے دو

گزشتہ کالم میں عرض کیا تھا کہ بعض اوقات موضوعات کاجمعہ بازار سجا ہوتا ہے ‘ کچھ ایسی ہی صورتحال نہ صرف تب تھی بلکہ آج یعنی ہفتہ کے روز شائع ہونے والے اخبارات میں بھی طرح طرح کی خبریں اپنی جانب توجہ دلا رہی ہیں تو ممکن ہے آج کا کالم”مکس مسالہ” قسم بھی ہو سکتا ہے ۔ استاد ذوق نے کہا تھا
لائو تو قتل نامہ مرا میں بھی دیکھ لوں
کس کس کی مہر ہے سر محضر لگی ہوئی
یہ شعریوں یاد آیا کہ پاکستان مسلم لیگ نون کے رہنمائوں نے منی بجٹ کو عوام کے قتل نامے سے تشبیہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ ”منی بجٹ عوام کا قتل نامہ ہے جس پر مہر لگائی گئی”شاہد خاقان عباسی اور احسن اقبال نے منی بجٹ کی منظوری کی ”واردات” پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ پہلے عوام کو مہنگائی کا کینسر لگایا اور کل گلا ہی کاٹ دیا ‘ پاکستان کے عوام پرسات سو ارب روپے سے زائد کابوجھ ڈالا جارہا ہے’ 13 جنوری پارلیمان کا سیاہ ترین دن تھا ‘ اس کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی ‘ بہت سی باتیں اور بھی دونوں رہنمائوں نے فرمائی ہیں جنہیں کسی بھی صورت تری باتوں میں گلوں کی خوشبو قرار نہیں دیا جاسکتا کہ عوام ان سے دکھی ہو سکتے ہیں ‘ ادھرلیگ نون کے صدراور قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف میاں شہباز شریف نے بھی منی بجٹ کی منظوری کوپارلیمانی تاریخ کا سیاہ ترین دن سے تشبیہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ عوام کی زندگیاں قابل رحم بنانے پر پی ٹی آئی کو معاف نہیں کریں گے ‘دوسری جانب قومی اسمبلی میں گرما گرمی کا سماں تھا اور مختلف رہنمائوں کے درمیان تندوتیز بیانات نے ماحول کو خاص گرم رکھا ‘ وفاقی وزیر مملکت نے سپیکر چیئر کی جانب کا غذ پھینکنے پر اعتراض کرتے ہوئے ایسا رویہ اختیار کرنے سے احتراز پر زور دیا ‘ جبکہ خواجہ آصف نے جواب میں کہا کہ سپیکر کی کرسی نے رولز کے ساتھ جو کچھ کیا وہ قابل افسوس تھا ‘ شازیہ مری نے کہا کہ پہلے ہم نے دریا دیئے ‘ پھر کشمیر دے دیا ‘ اب سٹیٹ بنک بھی دے دیا ہے اور یہی وہ نکتہ تھا یعنی سٹیٹ بینک کی ”حوالگی” کا جس پر دیگر نکات کو شامل کرکے منی بجٹ کی صورت منظور کرکے عوام پر اربوں روپوں کے ٹیکس لگانے کے حوالے سے استاد ذوق کے شعر کا حوالہ ہم نے دیا کہ حضور منی بجٹ اور دیگر ”عوام دشمن” پالیسیوں پر مبین بل کو پاس کرنے میں کیا صرف حکومت ہی ملوث ہے اور بحیثیت حزب اختلاف آپ نے کیا اس بل کو روکنے کی واقعی کوئی کوشش کی ہے یعنی اسی لئے تو منی بجٹ کے ”قتل نامے” پرجن جن سیاسی جماعتوں نے سرمحضر مہریںلگائی ہیںان میں آپ شامل نہیں ہیں؟ یعنی بقول شاعر
بس یہی وقت ہے سچ منہ سے نکل جانے دو
لوگ اتر آتے ہیں ظالم کی طرفداری پر
گویا جوظلم آئی ایم ایف پاکستانی عوام پر مسلط کر رہی ہے اس میں کیا سرکاراور کیا حزب اختلاف سب نے اپنا اپنا کردار ادا کرنے میں ذرا بھی”شرم” محسوس نہیں کی ‘ اگر حزب ا ختلاف نے اعتراضات کا واویلا مچاکر خود کو ایک ہندکو روز مرہ کے مطابق”سچی بی بی” ثابت کرنا شرع کر دیا ہے ۔ اس کا ثبوت ایک اخباری خبر کے مطابق یہ ہے کہ ”عمران خان ‘ شہباز شریف ‘ زرداری کو رائے شماری کے لئے دو بار ایوان میںآنا پڑا اور عمران خان نے بل کے حق میں ووٹ ڈال کر شہباز شریف اور زرداری کے موقف کو درست بہرحال قرار دے دیا کہ موخرالذکر دونوں رہنمائوں نے بل کے خلاف ہی ووٹ دیا ضرو ہو گا مگر بل کو مسترد کرنے میں ان کا کردار بھی سوالیہ نشان کی زد میں آتا ہے ۔
قومی شدیم چہ شد ‘ ناتواں شدیم چہ شکر
”چنیں”شدیم چہ شدیا چناں شدیم چہ شد
بہ ہیچ گو نہ قرار دے دریں گلستان پنست
تو گربہار شدی ماخزاں شدیم چہ شد
اب آتے ہیں امیر جماعت اسلامی خیبر پختونخوا کے تازہ بیان کی جانب جس میں سینیٹر مشتاق احمدخان نے کہا ہے کہ فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کے نام پر پھر سے بجلی کی فی یونٹ قیمت میں چار روپے تیس پیسے اضافہ سنگدلی اور سفاکیت ہے’ حکومت عوام کو کسی صورت ریلیف دینے کو تیار نہیں ‘ معلوم نہیں عوام سے کس بات کا انتقام لیا جارہا ہے ‘ پٹرول ‘ ڈیزل ‘ بجلی اور گیس بموں اور بدترین مہنگائی کے ذریعے عوام کو بغاوت پراکسایا جارہا ہے ‘ وزیر اعظم ”بحران اعظم” بن چکے ہیں انتہائی معذرت کے ساتھ گزارش کرنا پڑتی ہے کہ حزب اختلاف من حیث المجموع ٹک ٹاکر حریم شاہ بن چکی ہے ‘ جو پہلے غیرملکی کرنسی کے بنڈل سامنے رکھ کر ”منی لانڈرنگ” کا دعویٰ کرتی ہے مگر بعد میں سرکاری جماعت کی طرح ”یوٹرن” لیتے ہوئے اپنے بیان سے مکر جاتی ہے ‘حزب اختلاف مہنگائی کو پہلے رد کرتی ہے مگر بعد میں اس حوالے سے کوئی عملی اقدامات نہیں اٹھاتی ‘ اور حکومت جو چاہتی ہے کر گزرتی ہے ‘ تمام مخالفانہ بیانات کو روندتے ہوئے عوام پر مہنگائی کے پہاڑ توڑ دیتی ہے ‘ جبکہ حزب اختلاف کی صفوں میں ریڈیو پاکستان پشاور کے ایک بہت پرانے پروگرام کے ایک مشہور ڈائیلاگ کا ورد ہی سنائی دیتا ہے جو کچھ یوں تھا کہ ”نہ منو ‘ نہ منو ‘ طوطا رام نہ منو” یہ بھارت کے پروپیگنڈہ پروگرام کے توڑ کے طور پرنشر کئے جانے والے ایک نیم مزاحیہ پروگرام کے سگنیچر ٹیون کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا۔ لیکن ہماری حزب اختلاف کے اس ”میں نہ مانوں” کا کوئی نتیجہ اخذ نہیں ہوتا اور حکومت عوام کی چمڑی ادھیڑنے کا اپنا کام جاری رکھتی ہے ۔ حالانکہ اس تناظرمیں تو پرویز خٹک اور وزیر اعظم کے مابین گزشتہ روز ہونے والی ”توتکار” ہی زیادہ بھاری نظر آتی ہے ‘جس کے حوالے سے بعض تجزیہ کاراور وی لاگرز کی نپی تلی رائے یہ ہے کہ اصل معاملہ کچھ اور ہے اور اس کوکسی اور نظرسے دیکھ رہے ہیں یعنی مرحوم مقبول عامر کے بقول صورتحال کچھ یوں ہے کہ
پھر وہی ہم ہیں وہی تیشۂ رسوائی ہے
دودھ کی نہر تو پرویز کے کام آئی ہے
اب یہ دودھ کی نہر کس حد تک پرویز کے کام آسکتی ہے اس حوالے سے بس تھوڑا سا ا نتظار کا کشٹ اٹھانا پڑے گا۔ یعنی انتظار ساغر کھینچ ۔

مزید پڑھیں:  ڈیڑھ اینٹ کی مسجد