ضمنی بجٹ کا بوجھ عوام ہی اٹھائیں گے

مختلف الخیال اپوزیشن کا دعوی یہی تھا کہ ضمنی بجٹ منظور نہیں ہونے دیں گے اب کہا جارہا ہے کہ حکمران اتحاد کے ناراض ارکان پر”دبائو”ڈلوایا گیا اس دبائو کو وزیراعظم کے ایک حالیہ” مشن”سے جوڑا جارہا ہے اس منطق پر ہنسنے کی ضرورت نہیں کیونکہ ناکامی کی توجیہات تو پیش کرنا ہی پڑتی ہیں ، ویسے حالت حکمران اتحاد کی بھی پتلی ہی ہے وزیراعظم اور وزیر دفاع کی باہر آئی تندوتلخ گفتگو اور پھر قومی سلامتی پیش کرنے کی تقریب میں وزیر دفاع کی غیر موجودگی سوالات کو جنم دے رہی ہے چلیں ہم ضمنی بجٹ پر بات کرتے ہیں جمعرات کی شام قومی اسمبلی میں کثرت رائے سے ضمنی بجٹ کی منظوری دیتے ہوئے متحدہ حزب اختلاف کی تمام ترامیم مسترد کردی گئیں ، اپوزیشن نے ایوان میں عددی پوزیشن کو دوبارہ چیلنج کیا۔ دونوں مرتبہ حکمران اتحاد کے ووٹ اپوزیشن سے زیادہ تھے۔ ہنگامہ آرائی، تلخ کلامی اور طنزیہ جملوں کی بوچھاڑ کے درمیان منظور ہونے والے ضمنی بجٹ کے حوالے سے وزیر خزانہ شوکت ترین نے اپوزیشن کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا، آئی ایم ایف کے پاس جانے پر سوال وہ اٹھارہے ہیں جو اپنے اپنے دور میں عالمی مالیاتی اداروں کے پاس بھاگے ہوئے جاتے تھے ، ویسے اس میں ایک دور ایسا بھی تھا جب شوکت ترین ہی وزیر خزانہ تھے ۔ اطلاعات یہ ہیں کہ حکمران اتحاد کے ناراض ارکان اور وزیر دفاع پرویز خٹک کو وزیراعظم نے منالیا جس کے بعد ہی وہ ووٹ دینے ایوان میں آئے۔ ضمنی بجٹ آئی ایم ایف کی جانب سے ایک ارب ڈالر کے قرضے کی ادائیگی کے لئے رکھی گئی شراط کا حصہ تھا۔ آگے بڑھنے سے قبل عرض کردوں کہ ضمنی بجٹ کے منفی اثرات جمعہ کو مارکیٹوں میں نمایاں تھے ، حیران کن بات یہ ہے کہ معاشی خسارے میں سے خیر کے پہلو تلاش کرلینے والوں کے پاس بھی اس سوال کا جواب نہیں ہے کہ ضمنی بجٹ میں ختم کی گئی ٹیکس چھوٹ اور جنرل سیلز ٹیکس میں اضافے سے صورتحال بہتر کیسے ہوپائے گی؟ وسائل اور اخراجات میں عدم توازن تلخ حقیقت کے طور پر موجود ہے ایسے میں جنرل سیلز ٹیکس میں اضافے سے حکومت آئی ایم ایف کے ٹیکس وصولی کے حوالے سے دیئے گئے ہدف کو تو عین ممکن ہے کہ حاصل کرلے مگر معیشت کیسے مستحکم ہوگی۔ صنعتی عمل کا بحران کیسے دور ہوگا اور یہ کہ پیداواری اخراجات بڑھنے سے عام آدمی کیسے متاثر نہیں ہوگا؟ محض یہ کہہ دینا کہ مشکل حالات میں اس سے بہتر کچھ نہیں، درست نہیں ہوگا۔ ظاہر ہے ٹیکسوں کا بوجھ اسی عام آدمی نے اٹھانا ہے جبکہ حکومت سمجھتی ہے کہ وہ اشیائے ضروریہ کی خریداری کی مد میں ایک ہزار روپے ماہوار کی سبسڈی دے کر لوگوں کے بوجھ کو کم کرلے گی تو حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔ ڈالر کی قیمت کو سٹے بازوں کے رحم و کرم پر چھوڑدینے، پٹرولیم اور دیگر اشیا کی قیمتیں مسلسل بڑھاتے چلے جانے کا نتیجہ کیا نکلے گا اس پر ستم یہ ہے کہ343ارب روپے کے نئے ٹکیس ہیں جن کے بارے میں وزیر خزانہ کا دعوی ہے کہ ان کی وجہ سے مہنگائی نہیں ہوگی۔
ضمنی بجٹ کی منظوری سے قبل حکمران اتحاد کے اندر اٹھائے گئے سوالات، تحفظات اور تلخ کلامیوں کی جو خبریں ذرائع ابلاغ تک پہنچی ان سے یہ اندازہ لگانا چنداں مشکل نہیں ہے کہ سب ویسا نہیں جیسا بتایا اور ظاہر کیا جارہا ہے۔ حکومت کی معاشی ٹیم کے پاس تو اس سوال کا بھی جواب بھی نہیں ہے کہ گزشتہ تین برسوں کے دوران ڈالر کی قیمت میں56روپے کا اضافہ کیوں ہوا۔ اسی طرح ماضی میں روزمرہ ضرورت کی اشیا پر سیلز ٹیکس کم سے کم رکھا جاتا تھا اب آئی ایم ایف کی ہدایت پر اضافہ کردیا گیا ہے۔ وفاقی ادارہ شماریات کی مہنگائی کے حوالے سے رپورٹ کو ہی مان لیا جائے تو پچھلے برس مہنگائی میں عمومی طور پر18فیصد اضافہ ہوا۔12فیصد اضافہ تو صرف نومبر اور دسمبر میں ریکارڈ کیا گیا۔ پٹرولیم کی قیمتیں ہر پندرہ دن کے بعد اور بجلی کی ماہانہ بنیادوں پر بڑھتی ہیں۔ مثال کے طور پر گزشتہ کچھ عرصہ سے حکومت فیول ایڈجسٹمنٹ چارجز کے نام پر صارفین سے 47 سے 55 ارب روپے ماہوار اضافی رقم وصول کررہی ہے جمعرات کو ہی لگ بھگ ساڑھے چار روپے فی یونٹ کے حساب سے بجلی کی پیداوار پر فیول ایڈجسمنٹ لاگو کیا گیا یہ اضافہ نومبر کیلئے تھا جو جنوری کے بلوں میں وصول کیا جائے گا اس طور ملکی خزانہ میں55 ارب روپے کا اضافہ ہوگا ۔ اچھا کوئی بتائے کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ اخراجات میں اضافے کا بوجھ صنعت کار، اسٹاکسٹ اور بڑے تاجروں سے ہوتا ہوا پرچون فروش کے ذریعے عام صارف تک نہ پہنچے۔ وزیر خزانہ لاکھ کہیں عام آدمی کا ہمیں احساس ہے لیکن ٹیکسوں کا بوجھ اسی عام آدمی پر ہی منتقل ہونا ہے جو پہلے ہی آمدنی اور اخراجات میں عدم توازن کی وجہ سے پریشان ہے۔ کیا ارباب اختیار نہیں سمجھتے کہ عام آدمی کو حالات اور مہنگائی کے رحم و کرم پر چھوڑ دینے کے منفی نتائج برآمد ہوں گے۔ ایسے میں مسائل اور مہنگائی کے مارے لوگوں کے لئے اپوزیشن کی تحریکوں میں کشش ہوگی۔ وزیر خزانہ کو کون سمجھائے کہ آئی ایم ایف کی سخت شرائط اور حکومت کی مجبوریوں سے لوگوں کے چولہے نہیں جل سکتے۔ مہنگائی اور دوسرے مسائل حکومت کی راہ کے کانٹے ہیں۔ حالت یہ ہے کہ وزیراعظم اور وزیر خزانہ کی جانب سے اشیائے ضروریہ اور ڈالر کی سمگلنگ کے اعتراف کے باوجود ایسی کوئی کارروائی سامنے نہیں آئی جس سے یہ تاثر ملے کہ حکومت ڈالر اور اشیائے ضروریہ کی سمگلنگ روکنے کے لئے سنجیدہ ہے۔ یہ بھی بدقسمتی ہے کہ جغرافیہ سے بے خبر وزیر دعوی کررہے ہیں کہ سندھ سے افغانستان سمگلنگ ہورہی ہے۔ نرم سے نرم الفاظ میں یہ عرض کیا جاسکتا ہے کہ سب اچھا نہیں ہے۔ مسائل ہر گزرنے والے دن کے ساتھ گھمبیر ہوتے جارہے ہیں۔ ضمنی بجٹ منظور کرالینے پر مبارک و سلامت کا شور تھمے تو ارباب حکومت اس بات پر ضرور غور کریں کہ کس کے گھر جائے گا یہ سیلاب بلا ہمارے بعد اس پر غور کیا جانا اس لئے بھی ضروری ہے کہ یہاں کسی کو عوام کا خیال نہیں بس عالمی مالیاتی اداروں کا رانجھا راضی کرنے کے چکر میں حقائق کو مسخ کررہے ہیں۔

مزید پڑھیں:  بارش سے پہلے چھت کا انتظام کیوں نہیں؟