گنگا کس کی کھدائی ہے

کہا وت ہے کہ گنگا کس کی کھدائی جس کے معنی ہیں کہ بڑے بڑے کا خود خود بخود ہو جا یا کرتے ہیں جس کے لیے کسی کی ضرورت نہیں پڑ تی ، منی بجٹ کہنے کو تو اسی کہاوت کے زمر ے میں آتاہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس کی منظور ی کے لیے بہت کٹھن مزدوری کر نا پڑی ہے پہلی با ت تو یہ ہے یہ ارکا ن اسمبلی کے شہزادو ں نے جس بجٹ کی منظوری دی ہے وہ منی بجٹ کہلا نے کا حق نہیں رکھتا ، منی بجٹ کی روایت یہ رہی کہ جب اسمبلی کے منظور کر دی بجٹ سے حکومت کے اخراجا ت میں اضافہ ہو جائے تو حکومت اضافی اخراجا ت کو پورا کرنے کے لیے اسمبلی سے ایک ہلکا سے بجٹ منظور کر آتی ہے تاکہ اخراجا ت کو پورا کر نے میں پیسوں کی کمی واقع نہ ہو ،جس کو منی بجٹ کانا م دے دیا جا تا ہے ۔ مگر جو بھاری بھرکم بجٹ پی ٹی آئی نے پیش کیا ہے وہ تومنی بجٹ کے زمر ے نہیںآتا البتہ وہ میگا بجٹ ہے جس کو منی بجٹ کہہ کر عوام کو طفل تسلی کا اہتما م کیا گیا ہے ۔اس بجٹ کی منظور ی میں پی ٹی آئی کی قیا دت کو کتنے پا پڑ بیلنے پڑے ، اس بارے میں صرف اتنا کہنا کا فی ہے ان کی بیس بائیس سالہ سیا سی تاریخ میں اس سے زیا دہ کٹھو ر کوئی اور راہ نہیں آئی ۔خان کی پالیسی یہ رہی ہے وہ بیک وقت ایک ایشو کے موقع پر اس سے زیا دہ خطر ے والا ایشو کھڑ ا کر دیا کر تا ہے تاکہ اہم ایشو جس کے بارے میں یہ سوچ ہو کہ عوام کی سو چ اس سلسلے میں حکومت کے بارے میں مثبت نہ رہے گی چنانچہ مسلم لیگ ن کے رہنما جو خود بھی اقتصادیا ت کے ماہر ہیں اور آکسفورڈ یو نیورسٹی کے فارغ تحصیل ہیں احسن اقبال کا کہنا ہے کہ اسٹیٹ بینک کی خود مختاری کے نا م بل پا س کر ا کر پی ٹی آئی نے اسٹیٹ بینک آف پا کستان کو آئی ایم ایف اسٹیٹ بینک آف پاکستان بنا دیا ہے ، اب فرماتا ہے کہ مسلم لیگ ن برسراقتدار آکر یہ دونو ں بل واپس کر ئے گی ، کیا عالمی قوانین اس بات کی اجا زت دیتے ہیں کہ عالمی معاہد وں کو کوئی ملک یکطرفہ طور پر ریوس کر سکتا ہے اس کے بین الا قوامی اصول ہیں پھر حزب اختلا ف کا کردا ر بھی تو دیکھنا ہے کیا رہا جب بجٹ کے سلسلہ میں پہلا اجلاس ہواتو اپو زیشن کی اعلیٰ قیادت جن میں آصف زرداری ، شہبا ز شریف ، بلا ول بھٹو وغیر ہ غیر حاضر رہے اگر عمر ان خان کو اپنے سیاسی گھر کے اندر سے مخالفت کا سامنا نہ ہو تا تو اس امر کا امکا ن تھا کہ بجٹ اسی طر ح پا س ہو جا تا جس طر ح اب کی ہو ا ، عوام نے دیکھ لیا کہ ارکا ن پارلیمنٹ عوام کی غربت میں کس حد تک خجل رہتے ہیں پھر یہ دیکھنے میں آیا کہ جب کبھی پارلیمنٹ میں انتہائی اہمیت کے بل کی منظوری کا مر حلہ آتاہے تو سیا سی جماعتیں اپنی اپنی پارلیمانی جماعتوں کا خصوصی اجلا س طلب کر کے ایو ان کے اندر پا لیسی اختیا ر کر نے کی منصوبہ بندی کر تی ہے ۔ اگر میگابجٹ پاکستان میں غریب ترین عوام کے باعث ہو گا تو اس میں اکیلی پی ٹی آئی نہیں بلکہ اپوزیشن جما عتوں کا بھی برابر حصہ ہے ، کیا حزب اختلا ف کے رہنما خاص طورپر شہباز شریف جو پوری حز ب اختلا ف کے رہنماء ہیں کیا انھوں نے حزب اختلا ف کی جماعتوں کے کوئی بااعتما د صلا ح مشورہ کیا اور کوئی منضبط پا لیسی بنائی کہ غریبوں کی جڑوں کو اکھا ڑ پھینک دینے والے میگا بجٹ کاکیسا کر یں گے ۔جو کھیل میگا بجٹ اور اسٹیٹ بینک کی خود مختاری کا ہو ا ہے اس کے بعد تو مسلم لیگ ن نے تحریک عدم اعتما د سے بھی ہا تھ اٹھا دیئے ہیں کو یہ دعویٰ کر تے تھے کہ بیساکھیا ں لڑکھڑا گئی ہیں ان کا کہنا ہے کہ لڑکھڑا تی دکھائی گئیں تھیں چنا نچہ انھوں نے اپنے بیا ن میں یہ حقیقت بیا ن کردی ہے کہ آپشن اس وقت استعمال ہو سکتا ہے جب لو گو ں کو فون نہ آئیں ، مسلم لیگ ن کا تو پی ڈی ایم کی تشکیل کے وقت سے یہ بیا نیہ تھا کہ فون نہیں آنا نہیں چاہیںحزب اختلا ف کی پوزیشن کا اندا زہ اس امر سے لگا لیا جائے کہ ایو ان میں اپو زیشن کے پا س ظاہر طور پر 162 سیٹیںہیں جبکہ حکومت پر 172ارکا ن نے ہا تھ رکھا ہوا ہے گویا اپو زیشن کو ایک درجن زائد مزید ارکا ن پارلیمنٹ کی ضرورت ہے تحریک عدم اعتما د کا کامیا ب بنا نے کے لیے او ر وہ یہ جانتے ہیں ٹیلی فون خالی حکومتی ارکا ن کو کا ن پر نہیں لگانے پڑتے ان میں سے کئی حزب اختلا ف کر ارکا ن ہیں ان کو بھی ہیڈفو ن لگانا پڑ جا تے ہیںاس میگا بجٹ کو حزب اختلا ف عوام کی زیست کا بجٹ قرار دیتی رہی مگر اس نے اپنے ارکا ن کی نگرانی نہیں کی میگا بجٹ کے وقت اپو زیشن کے 162ارکا ن میں سولہ ارکا ن وہ غائب تھے جن کے بارے میں بتایا گیا کہ وہ ملک سے باہر گئے ہوئے تھے گو یا ایو ان میں حز ب اختلا ف کے ایک سو چھیا لیس ارکا ن مو جو د تھے اتنے اہم معاملہ پر ان ارکان کو باہر جانے سے کیو ں روکا نہیں گیا وہ عوامی نمائندے ان کی پہلی ذمہ داری عوام کی نمائند گی کرنا ہے یہ ہی نہیں حکومتی ارکان کی تعدا د 179ہے جس میں سے 168ایو ان میں حاضر رہے گویا گیا رہ ارکا ن حکومت کے بھی غیر حاضر رہے یہ لو گ اسی طر ح غیر حاضر رہے جس طرح بجٹ کے پہلے اجلا س سے آصف زرداری ، بلا ول اور شہباز شریف غیر حاضر رہے تھے ۔ جو ارکا ن اجلا س سے غیر حاضر رہے انھو ں نے تو جواز دیا کہ کیا وجہ تھی مگر اب تک تینوں قائدین نے کوئی جو اب نہیں دیا اگر یہ پہلے ہی اجلا س میں شریک ہو جاتے تو حکومت کے لیے صورت حال مختلف ہو سکتی تھی ۔ یہ تینو ں قائدین عوام بڑے سکون وآرام سے عوام کے غم اپنے مستقر میں ٹسوے بہا تے رہے ۔

مزید پڑھیں:  کیا بابے تعینات کرنے سے مسائل حل ہوجائیں گے