مشرقیات

پی ٹی وی کو خدا جانے کس بزرجمہر کی دی ہوئی گائیڈ لائن کے تحت اردو ڈراموں کی ریکارڈنگ سے روک دیا گیا اور پرائیویٹ اداروں سے مہنگے داموں ڈرامے خرید کر نشر کرنے کا پابند کیا گیا ‘ جس سے تقریباً پورے پاکستان کے ڈرامہ فنکاروں پر پی ٹی وی کے دروازے بند کر دیئے گئے جس کا سب سے زیادہ نقصان صرف پشاور کے فنکاروں کو پہنچا کیونکہ کراچی میں پرائیویٹ پروڈکشن روز بہ روز روبہ ترقی ہونے کی وجہ سے وہاں تو ڈرامہ نجی ٹی وی چینلز پر بھی پنپتا رہا اور اب بھی تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے ‘ لاہور میں مختلف ٹی وی چینلز نے مزاحیہ فنکاروں کو لیکر شوز شروع کر رکھے ہیں جن سے وہاں کے فنکار اچھی خاصی کمائی کر لیتے ہیں جبکہ پشاور کے فنکار بے چارے کسمپرسی کی کیفیت سے دو چار ہیں ‘ سٹیج ڈراموں اور دیگر پروگراموں پر پابندی اوپر سے پی ٹی وی پر پشتو اور ہندکو پروگراموں کی”بندش” نے انہیں کہیں کا نہیں رکھا محاورے کے مطابق چوہا لنڈورا ہی بھلا ‘ اس صورتحال پر رضی اختر شوق نے کیا خوب کہا ہے کہ
کوئی اس شہر میں آسیب صدا دیتا ہے
جو دیا لے کے نکلتا ہوں بجھا دیتا ہے
اب جبکہ پی ٹی وی نے پشاور سینٹر کو ڈراموں وغیرہ کی ریکارڈنگ کی اجازت دیدی ہے مگر ان فنکاروں کے بقول ان پروگراموں میں مقامی فنکاروں کے بجائے غیر مقامی فنکاروں کو مواقع دیئے جارہے ہیں اور مقامی فنکار ایک بار پھر محرومی کا شکار ہیں ‘ جو یقیناً مقامی ہنر مندوں کی حوصلہ شکنی ہے یہ بھی اچھی بات ہے کہ خاموش رہنے کے بجائے مقامی فنکار اپنے جائز حق کے لئے بولنے پر مجبور ہو ہی گئے یعنی بقول باقی صدیقی
باقی جو چپ رہوگے تواٹھیں گی انگلیاں
ہے بولنا ہی رسم جہاں بولتے رہو
ویسے بھی بقول فیض احمد فیض بول کہ لب آاد ہیں ترے ‘ اور یہ بولنا بروقت بھی ہے اور جائز بھی کہ
موذن مرحبا بروقت بولا
تری آواز مکے اور مدینے
پشاور کے فنکاروں کا مسئلہ یہ ہے کہ ان میں ٹیلنٹ کی کوئی کمی نہیں مگر بدقسمتی یہ ہے کہ نہ تو یہاں کراچی اور لاہور کی طرح ایسے سرمایہ کار آگے آتے ہیں جو ڈرامہ پروڈکشن میں ان کی مدد کرکے یہاں ڈرامے وغیرہ تخلیق کریں ‘ نہ پرائیویٹ چینلز والے ان سے ڈرامے خرید کر ان کی حوصلہ افزئی پر تیار ہیں ‘فنکاروں کی درست داد رسی نہیں کرتا ‘ تو پھر یہ بے چارے جائیں تو جائیں کہاں؟ بقول ڈاکٹر نذیر تبسم
استعارہ ہیں کسی شہر خموشاں کا نذیر
یہ مرا شہر پشاور ‘ مرے مرتے ہوئے لوگ

مزید پڑھیں:  جائیں تو جائیں کہاں ؟