ملکی سلامتی پر سمجھوتہ۔۔۔۔؟؟

قومی سلامتی پالیسی کے پبلک ورژن کے اجراء کے سلسلے میں منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے جہاںپالیسی کے حوالے سے اپنے خیالات کا ا ظہار کیا وہاں وزیراعظم عمران خان نے عالمی مالیاتی فنڈآئی ایم ایف کی شرائط ماننے سے ملکی سلامتی پرسمجھوتہ کرنے کے حوالے سے جن خیالات کا اظہار کیا ہے وہ نہایت پریشان کن ہے ۔دیگر نکات سے قطع نظر اگر صرف اسی نکتے کا جائزہ لیاجائے اور اس کے عوامل پر غور کیا جائے تو وزیر اعظم نے نہایت باریک اور حساس معاملے کی طرف اشارہ کیا ہے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیاوزیراعظم کے پاس آئی ایم ایف کی شرائط کے سامنے سرتسلیم خم کرتے ہوئے سکیورٹی پرسمجھوتہ کرنے کے علاوہ کوئی اورچارہ کار باقی نہیں رہ گیا تھا یقینا ایسا ہی ہو گا وگرنہ حکومت پارلیمان سے حزب اختلاف کی سخت تنقید کے باوجود تگ و دو کرکے منی بجٹ آئی ایم ایف کے شرائط پر منظور نہ کرواتی ۔فی زمانہ ملکی سلامتی کا دارومدار اب عسکری قوت اور جنگی سازوسامان یہاں تک کہ ایٹم بم بھی قومی سلامتی کی ضمانت نہیں ر ہااس ضمن میں سوویت یونین کا شیرازہ بکھرنے کی اکثر و بیشتر مثالیں دی جانے لگی ہیں جبکہ ممالک کے درمیان سرد جنگ اور پنجہ آزمائی اب عسکری قوت کے بل بوتے پر نہیں بلکہ معاشی واقتصادی میدان میں ہونے لگی ہے ۔دیکھا جائے تو دنیا کے تمام ممالک اب عسکری اوراسلحہ و گولہ بارود جمع کرنے پر کم توجہ دینے لگی ہیںاور ان تمام کی توجہ اقتصادی اور معاشی قوت بننے پر مرکوز ہے اور لمحہ موجود کی اب یہی حقیقت بن چکی ہے جبکہ ہمارے ہاں صورتحال یہ ہے کہ خود وزیر اعظم اس امر کا اعتراف کرنے پرمجبور ہوئے کہ حکومت کو سمجھوتہ کرنا پڑا ہے ۔وزیر داخلہ شیخ رشید نے بھی اپنی پریس کانفرنس میں عالمی مالیاتی ا دارے کی شرائط سخت ہونے کا اعتراف کیا ان کا کہنا تھا کہ کوئی خوشی سے آئی ایم ایف کے پاس نہیں جاتا حالات کی مجبوری ہوتی ہے ۔محولہ تمام امور پر نظردوڑانے سے جوبات سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ موجودہ اور آنے والی ہر حکومت کو دیگر تمام امور کو ایک طرف رکھتے ہوئے معاشی استحکام کے پہلو پر اپنی تمام توانائیاں صرف کرنی پڑے گی اگردیکھا جائے تو موجودہ حکومت کی کارکردگی اس معاملے میں محل نظر ہے حکومت اپنی چوتھے برس میں داخل ہو چکی ہے مگر معاشی اشاریوں میں پستی اور مہنگائی میں دن بدن اضافہ ہوتا جارہا ہے ۔ معیشت کو مستحکم بنانے میں صنعت کاری اور پیداوار میں ا ضافہ بنیادی عوامل ہیں مگر اس ضمن میں کوئی بڑی پیش رفت نظرنہیں آتی بلکہ اگریہ کہا جائے کہ گراوٹ کی صورتحال ہے تو خلاف حقیقت نہ ہوگی۔تمام تر دعوئوں کے باوجود حکومت محولہ معاملات میں اول العزمی اور مستقل مزاجی سے کچھ نہیں کر سکی اگردیکھا جائے تو یکسوئی کی حامل موجودہ حکومت کے لئے ایسا کرنا ماضی کی حکومتوں سے نسبت آسان
تھا۔ قومی سلامتی پالیسی میں معاشی تفاوت اور امیر و غریب میں بڑھتے ہوئے امتیاز اور معاشی عدم استحکام کے باعث درپیش خطرات سے نمٹنے کی ضرورت کوبھی واضح کیا گیا ہے ۔دیکھا جائے تو پاکستان جیسے کثیر آبادی اور مختلف معاشرے رکھنے والے ملک میںمعاشی ناہمواری ‘ سماجی بے چینی کا ایک ایسا بنیادی محرک ہے جس کے باعث بے چینی میں نہ صرف اضافہ ہو رہا ہے بلکہ اس سے معاشرتی تضادات کی خلیج بھی وسیع ہوتی جارہی ہے ۔یہاں کہ سماج میں چند دہائی پیچھے اس طرح کی صورتحال نہ تھی اور نہ ہی ناہمواری کے منفی اثرات آج کی طرح پریشان کن تھے مگر گزشتہ کچھ برسوں میں جوں جوں ہم کنزیومر سوسائٹی کی حیثیت سے راسخ ہوتے گئے سماجی مقابلہ بازی اور وسائل آمدنی کا فرق سماجی عدم تحفظ کا بنیادی سبب بن چکا تو یہ ہمارے پرامن ‘ محفوظ ‘ ہم آہنگ سماج کے لئے بھی ناہمواری کے مسائل کی صورت میں سامنے آیا جس سے نمٹنا قومی سلامتی کا لازمی تقاضا ہے ایک جانب جہاں ہماری معیشت زوال پذیر ہے دوسری جانب سماجی ناہمواری کے باعث داخلی بے چینی میںبھی اضافہ ہورہا ہے چونکہ یہ اسباب معیشت سے جڑے ہیں اور معاشی ناہمواری ہی احساس محرومی اور اس میں اضافے کا باعث بن رہا ہے اس لئے اس کا آخری حل بھی معاشی استحکام اور معاشی مساوات ہیں۔آنے والے برسوں میں موسمیاتی تبدیلی کے منفی اثرات اور پانی کی قلت سے زراعت اور آبادی کو درپیش خطرات بھی سنگین امور بن چکے ہیں اور یہ معاملات بھی بالاخر ہماری قومی سلامتی پراثر انداز ہونے کا باعث بنتے جارہے ہیں اور بن سکتے ہیں۔بہرحال قومی سلامتی پالیسی میں ملک کو درپیش چیلنجز اور ان سے نبردآزما ہونے کے ساتھ ساتھ عام پاکستانیوں کی خوشحالی اور ترقی پرتوجہ دینے کا عزم ظاہر کیا گیا ہے ۔ پالیسی کی اہم نکات میں معیشت کو مرکزی حیثیت حاصل ہو گی جیواکنامکس پربھی خصوصی توجہ مرکوز کی گئی ہے یہ بھی طے کیا گیا ہے کہ آئندہ جیو پالیٹیکس میں قومی مفاد پر سمجھوتہ نہیں کیا جائیگا اور آئندہ پاکستان کا محور جیو پالیٹیکس جیو اکنامکس ہو گا جس پر عملدآرمد اور سنجیدگی سے اس پالیسی پرعملدرآمد اہم ہو گا۔اس پالیسی کی تیاری یقینا شہ دماغوںہی کا کارنامہ ہو گا لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ قومی سلامتی پالیسی کی تیاری اور اجراء میں پارلیمان کو نظر انداز کیوں کیاگیا اور پارلیمان کو لاعلم کیوں رکھا گیا۔ ٹیکس پر ٹیکس عائد کرکے عوام پر بوجھ اور سلامتی پر سمجھوتہ دونوں میں سے کیا کسی ایک نکتے کا انتخاب ممکن نہ تھا یہاں تو عوام پر ٹیکس کا بوجھ لاد دیاگیا ہے اور خود بقول وزیر اعظم قومی سلامتی پر سمجھوتہ بھی کرنا پڑا۔ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک میں سیاسی استحکام کے حوالے سے اب روایتی انداز سے ہٹ کر فیصلے کئے جائیں تاکہ ملک میں استحکام آئے جس کے ساتھ ساتھ بہتر معاشی پالیسیوں سے عوام کے مسائل ومشکلات میں کمی لائی جائے اس میں کوئی شک نہیں کہ ریاستوں کی بقاء ان میں رہنے والے افراد کی زندگیوں میں آسانیوں سے مشروط ہوتی ہے جتنی ضرورت سرحدوں کی حفاظت ہے اتنی ہی اہمیت سرحدوں کے اندر رہنے والے افراد کی بھی ہے ۔تجارت اور سرمایہ کاری سے ملک میں معیشت کو آگے بڑھایا جا سکتا ہے جو شفافیت اور سخت فیصلوں کے بغیر ممکن نہیں حکومت اور ادارے اس پالیسی کے نفاذ میں مخلص ہیں تو وہ معاشرے کے تمام طبقات کو اپنے ساتھ ملا کر آگے بڑھیں پاکستان کے سامنے اس وقت پہاڑ سے بلند چیلنجز ہیں اگر ہمیں ان کا سامنا کرنا ہے تو یکجان ہونا پڑے گا اور ایک قوم کی طرح اتحاد و اتفاق اور ہم آہنگی کی فضا میں آگے بڑھنا ہو گا۔

مزید پڑھیں:  تزئین و آرائش بعد میں ،پہلے شہر بچائو