کثیرالجہتی چیلنجز حکومت کیلئے امتحان

وزیر اعظم عمران خان کو اپنے اقتدار کی باقی ماندہ مدت میں کثیر الجہتی چیلنجز کا سامنا ہے، خصوصاً عام انتخابات میں اب ایک سال سے بھی کم وقت رہ گیا ہے، اُن کی حکومت کو اس سال اندرونی و بیرونی طور پر ایسی آزمائشوںکا سامنا ہے جو 2023ء میں ان کے انتخابی مستقبل کا تعین کریں گی۔ اُن کے سیاسی مستقبل اور ملک کے لئے بھی سب سے اہم امر معاشی صورتحال ہے، بڑھتی ہوئی مہنگائی اور گیس کی قلت سے لوگ شدید متاثر ہورہے ہیںاوراُس صورت حال نے حکومت سے عوام کی ناراضی کو مزید بڑھایا ہے جس کی جھلک رائے عامہ کے جائزوں میں بھی نظر آئی ہے، حالیہ منی بجٹ میں مالیاتی و دیگر اقدامات شامل ہیں، جنہیں پیشگی اقدامات بھی کہتے ہیں جو دراصل آئی ایم ایف کے پروگرام کی بحالی اور پاکستان کو فوری طور پر درکار فنڈز کے اجراء کے لئے شرائط ہیں۔ ادائیگیوں میں بڑھتے ہوئے عدم توازن نے قرضوں نے آئی ایم ایف پروگرام کی جلد از جلد بحالی کو ناگزیر بنایا ہے لیکن بجلی اور ایندھن کی قیمتوں میں اضافے کے ساتھ ساتھ دیگر ٹیکس کے اقدامات لوگوں کی معاشی مشکلات میں مزید اضافہ کریں گے اور اس کی سیاسی قیمت بھی ہوگی۔ دیکھا جائے تو حکومت مشکلات کے بھنور میں پھنسی ہوئی ہے، اُسے معاشی بحران سے بچنے کے لئے فنڈز درکار ہیں لیکن مطلوبہ مالیاتی اقدامات پر عمل درآمد سے اُس کی مقبولیت میں کمی آئے گی۔ گزشتہ سال حکومت کے بے وقت توسیعی بجٹ سے معاملات مزید خراب ہوئے، چنانچہ اب اسے نہ صرف راستہ بدلنا ہے بلکہ یہ سب ایک ایسے وقت کرنا ہے جب عام انتخابات بھی زیادہ دور نہیں ہیں۔ سیاسی محاذ پر بھی حکومت کو چیلنجز درپیش ہیں۔ خیبرپختونخوا میں ہونے والے حالیہ بلدیاتی انتخابات میں حکمران جماعت کو بڑا دھچکا لگا ہے، اُس نے ایک ایسے صوبے میں اپنی سیاسی ساکھ کھو دی ہے جو طویل عرصے سے اس کا گڑھ رہا ہے،17صوبائی اضلاع میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں پی ٹی آئی تیسرے نمبر پر رہی، اگرچہ یہ جماعت میئر کے کئی نشستیں ہاری ہے لیکن صوبائی دارالحکومت میں میئر کا الیکشن میں ناکامی اس کے لئے پریشان کن صورت حال ہے کیونکہ حکمراں جماعت نے 2018 ء کے انتخابات میں پشاور سے قومی اور صوبائی اسمبلی کی تمام نشستیں جیتی تھیں۔ اسی طرح اس سے پہلے خیبرپختونخوا اور پنجاب دونوںصوبوں میں قومی اور صوبائی اسمبلی کی نشستوں کے ضمنی انتخابات اور پنجاب میں کنٹونمنٹ بورڈ کے انتخابات میں بھی اُسے شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ یہ سیاسی دھچکے پی ٹی آئی حکومت کی مجموعی کارکردگی پر رائے دہندگان کے عدم اعتماد اوراشیاء کی بڑھتی قیمتوں کے ساتھ عوامی غم وغصہ بڑھنے کا بھی عندیہ ہیں۔ دراصل مہنگائی حکمراں جماعت کے لئے سیاسی طور پر ایک تشویشناک مسئلہ بن چکی ہے اور حکمران جماعت کے کئی وزراء نے بھی تسلیم کیا ہے کہ مہنگائی ہی خیبرپختونخوا کے انتخابات میں پارٹی ناکامی کی بنیادی وجہ بنی ہے۔ پارٹی کی غیر منظم حالت بھی انتخابی دھچکوں کے پیچھے کار فرماایک اہم عنصر ہے، مثلاً خیبر پختونخوا میں پارٹی کے بہت سے ارکان نے آزاد امیدوار کی حیثیت سے الیکشن لڑنے کے لئے پارٹی ڈسپلن کی خلاف ورزی کی، پی ٹی آئی کو دھڑے بندی کی حالت میں چھوڑ کر خود وزیراعظم کو پارٹی معاملات کے لیے بہت کم وقت ملا ہے۔ خیبر پختونخوا کے انتخابی دھچکے کے بعد انہوں نے ملک بھر میں پارٹی کی تنظیمیں تو تحلیل کر دی ہیں لیکن پارٹی الیکشن جیت کی پوزیشن میں لانے کے لئے مزید اقدامات درکار ہوں گے اور یہ سب 2023ء سے پہلے کرنا ضروری ہے۔اس کے علاو ہ عمران خان حکومت کو خارجہ پالیسی کے محاذ پر بھی کئی چیلنجز کے امتحان سے گزرنا ہوگا، طالبان کے زیر انتظام افغانستان میں غیر مستحکم صورتحال کو احتیاط سے نمٹنے کی ضرورت ہوگی، اگرچہ پاکستان افغانستان کو انسانی اور معاشی تباہی سے بچانے کے لئے ہر طرح کی مدد فراہم کررہا ہے تاہم اُسے کابل کے ساتھ تنازعات کا باعث بننے والے معاملات کو بھی حل کرنا ہوگا، ان میں سب سے اہم کالعدم تحریک طالبان کا معاملہ ہے جس کا افغانستان میں اڈہ بدستور موجود ہے جہاں سے وہ پاکستانی سرزمین پر حملے کرتی ہے۔ اسی طرح مشرقی ہمسائے بھارت کے ساتھ تعلقات بھی جمود کا شکار ہیں اور قریب وقت میں باضابطہ مذاکرات دوبارہ شروع ہونے کا کوئی امکان نہیں ہے، ایک ایسے وقت میں مقبوضہ کشمیر میں جب بھارت کی ظالمانہ کارروائیاں جاری ہیں ، وہاں کے حالات دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی کو مزید بڑھا سکتے ہیں چنانچہ اس صورت حال سے دانشمندی سے نمٹنا ہو گا۔ وزیر اعظم خان کی ان چیلنجوں خصوصاً بڑھتی ہوئی معاشی بے چینی سے نمٹنے کی اہلیت آئندہ انتخابات میں ان کی پارٹی کی کامیابی کی کلید ثابت ہوگی۔
(بشکریہ، عرب نیوز، ترجمہ: راشد عباسی)

مزید پڑھیں:  ''ضرورت برائے بیانیہ''