ڈیجیٹل انقلاب اور مصنوعی ذہانت

میرے ایک ہم مکتب گذشتہ تین دہائیوں سے امریکہ میں کمپیوٹر ٹیکنالوجی کے شعبہ میں کام کررہے ہیں۔ اپنے شعبہ میں ان کا شمار ایک زیرک کمپیو ٹر ڈیزائن ا نجنئیر کے طور پہ ہوتا ہے۔ وہ ہر سال پاکستان آتے ہیں اور یہاں دوستوں کے علاوہ اپنے شعبہ کے ماہرین سے بھی ملتے ہیں۔
وہ دسمبر میں اسلام آباد آئے تو ان کے شعبہ سے منسلک مقامی افراد نے ایک نشست کا اہتمام کیا۔ مَیںانہیں ملنے گیا تو اس محفل میں بھی شریک ہوا۔ مستقبل کے بارے میں کوئی بھی بات پورے یقین سے کہنا دشوار ثابت ہوتا ہے۔وہاں انیسویں صدی کو صنعتی انقلاب کے حوالہ سے یاد کیا گیا کہ اگر یہ انقلاب رونما نہ ہوتا تومتوسط طبقے کا وجود ممکن نہ ہوتا اور اسی سے جمہوریت کی راہ ہموار ہوئی ۔اس نے پیداوار کی دنیا میں انقلاب برپا کردیا تھا۔ کم افراد کی مدد سے بہت بڑے پیمانے پر صنعتی پیداوار کو کئی گنا بڑھانا ممکن ہوگیا۔ آج کی دنیا میں اگر ٹیکنالوجی کی پیش رفت ممکن بنائی جاسکے تو عالمی معیشت کوترقی دینے میں بڑی مدد مل سکتی ہے۔دنیا میں بہت سی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں اور ان تبدیلیوں کے حوالے سے بہت کچھ کہا جارہا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ اس وقت دُنیا دوسرے صنعتی انقلاب کی دہلیز پر کھڑی ہے۔ یہ دوسرا صنعتی انقلاب ڈیجیٹل نوعیت کا ہے اور اس کے نتیجے میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کا دائرہ پہلے صنعتی انقلاب کے دائرے سے زیادہ وسیع ہوگا۔ماہرین کا کہنا تھا کہ اس وقت ہمیں بہت کچھ دکھائی دے رہا ہے مگر یہ سب کچھ بچوں کے لیے تیار کیے جانے والے کھلونوں سے زیادہ کچھ نہیںاور جو کچھ ہونا چاہیے وہ اب تک نہیں ہو رہا ۔ اب تک ٹیکنالوجی کے شعبہ میں غیر معمولی پیش رفت کے باوجود دُنیا میں پیداوارکی صنعت مطلوبہ نتائج دینے میں قدرے کمزور ہے ۔ اس کا مطلب ہے کہ مشینیں توقعات کے مطابق پیداوار دینے میں ناکام رہی ہیں۔ ڈیجیٹل انقلاب کی صورت میں عالمی معیشت کو ایک بار پھر فروغ دیا جاسکے گا اورپیداواری صلاحیت میں کئی گنا اضافہ ہوگا۔ماہرین نے اپنی گفتگو میں یہ نمایاں کیا کہ جب کمپیوٹر انسانی زندگی میں آیا تب سے مصنوعی ذہانت کے بارے بہت کچھ سوچا جاتا رہا ہے اور اس سلسلے میں عملی سطح پر بھی بہت کچھ کیا گیا ہے۔ ابتدا میں مصنوعی ذہانت کو پروان چڑھانے کی رفتار کم تھی اور اس کا بنیادی سبب یہ تھا کہ ابتدائی دور کے کمپیوٹر انسانی ذہن کی سی تیزی سے کام کرنے کے قابل نہ تھے۔ لیکن آج ایسے کمپیوٹر ہیں جو برق رفتاری سے کام کرتے ہیں اور دیا ہوا کام مطلوبہ نفاست اور جامعیت کے ساتھ مکمل کرتے ہیں۔ہاں مصنوعی ذہانت کے حوالے سے انسان اب بھی اپنی منزل سے دور ہے مگر بہت جلد ایسے کمپیوٹر تیار کیے جاسکیں گے، جو بالکل انسانی ذہن کی تیزی اور جامعیت کے ساتھ کام کرسکیں۔اگرچہ چند عشروں کے دوران ہارڈ ویئر کے شعبے میں غیر معمولی ترقی نے انتہائی تیزی سے کام کرنے والے کمپیوٹر تیار کرنا ممکن بنادیاہے جوحیرت انگیز تیزی سے آپریشنز کر گزرتے ہیں ۔یہ کمپیوٹر بڑے حجم کے ہیںاور ان کی لاگت بھی بہت زیادہ ہے ۔اب مسئلہ یہ ہے کہ اس کمپیوٹر کے حجم کو چھوٹا کرنا ہے تاکہ وہ بہتر انداز سے کام کریں اور انہیں چلانا معاشی اعتبار سے مشکلات پیدا کرنے کا باعث نہ بنتا ہو۔
مصنوعی ذہانت کے شعبے میں غیر معمولی رفتار سے پیش رفت جاری ہے۔ مستقبل میں صورتِ حال مزید واضح ہو جائے گی اور انسان اس قابل ہوجائے گا کہ زیادہ سے زیادہ کام کمپیوٹر کے حوالے کرکے خود سکون کا سانس لیتا رہے۔ آج بھی دنیا میں کئی صنعتی اور تجارتی کام روبوٹس کی مدد سے ہورہے ہیںاور روبوٹس فیکٹریوں میں گاڑیاں بھی تیار کر رہے ہیں۔ یہ سوال بھی ہر ایک کے ذہن میں ہے کہ کیا واقعی مشینیں انسانی ذہن کی طرح سوچنے کے قابل ہوسکیں گی۔ ہوسکتا ہے کہ ایسا ممکن نہ ہو پائے مگر جس قوم میں سوچنے کی جتنی صلاحیت ہوگی وہ بھرپور ترقی کرنے کی اہل ہوگی۔ ٹیکنالوجی کے شعبے میں پیش رفت اور اہلیت ہی کسی قوم کی ترقی اور بقا کی ضمانت ہوگی۔یہ خدشہ بھی موجود ہے کہ روبوٹس کے آنے سے بے روزگاری کا مسئلہ پیدا ہوگا۔جب ماہرین کی اس نشست میں یہ کہا گیا کہ مصنوعی ذہانت کو سوچنے کے حوالے سے بھی تیار کیا جا رہا ہے تاکہ زندگی کے کئی معاملات کو فوراً طے کیا جا سکے تومَیں نے محفل میں مزہ اُٹھانے کوپوچھا کہ کیا پھر مشین اس مصنوعی ذہانت سے شاعری بھی کرنے لگے گی۔ میرے دوست نے جواب دیا کہ فکر نہ کریں مستقبل میں کمپیوٹر ناول بھی لکھنے لگیں گے۔ اس نشست کے اختتام پر سوچنے لگا کہ یہ ڈجیٹل انقلاب بہت سی تبدیلیوں کا سبب بنے گا۔ ہاں اگر ایک طرف انسان کئی کام مصنوعی ذہانت پہ چھوڑ کر اپنے لیے بہتر کام ڈھونڈ سکتا ہے تو دوسری طرف جب مشینیں خود ہی سوچنا شروع کر دیں تب انسان کے لیے اپنے وجود کی معنویت کے حوالے سے بھی کئی مسائل کھڑے ہو سکتے ہیں۔ کیا سب کچھ مشینوں کے حوالے کرکے انسان گوشہ نشینی اختیار کرلے گا؟

مزید پڑھیں:  موروثی سیاست ۔ اس حمام میں سب ننگے