سانحہ مری

سانحہ مری اور ہم

سانحہ مری کی بازگشت آجکل پورے ملک میں گونج رہی ہے۔سانحات ہر دور اور ہر ملک میں پیش آتے ہیں لیکن بد قسمتی سے پاکستان میں ان سانحات پر سیاست کرنے کا جو رواج چل پڑا ہے وہ نہایت ہی افسوسناک ہے۔ مثلاً اپوزیشن اس سانحہ کی تمام تر ذمہ داری حکومت پر ڈال رہی ہے اور اسے ہی موردِ الزام ٹھہرا رہی ہے کہ اس نے محکمۂ موسمیات کی پیش گوئی کے باوجود نہ صرف عدم پیشگی اقدامات اٹھائے بلکہ غفلت اور سستی کا مظاہرہ کرتے ہوئے سیاحو ں کو ان کے حال اور موسم پر چھوڑ دیا جبکہ حکومت اس کا دوش برفانی طوفان کے ساتھ ساتھ سیاحو ں کی ناعاقبت اندیشی کو دے رہی ہے جنہوں نے مری کی تنگ دامنی اور خراب موسم کو پیشِ نظر نہیں رکھا اور ضرورت سے زیادہ تعداد میں امڈ آئے۔حکومت اپوزیشن کو بھی آڑے ہاتھوں لے رہی ہے کہ اس نے اپنے سابقہ ادوار میں مری میں ترقیاتی کام کروانے کی بجائے اپنے محلات کی تعمیرات کو ترجیح دی جس کے سبب ایسا سانحہ رونما ہوا۔ایسے سانحات سے کوئی سبق حاصل کرنے اور مستقبل میںکسی ٹھوس منصوبہ بندی کی بجائے الٹا اپنی سیاسی دوکانداری چمکانا اور ایک دوسرے پر طنز و تشنیع کے تیر برسانا ہمارے سیاستدانو ںکا معمول بن چکا ہے ۔
ہمیشہ وہ قومیں عظیم بنتی ہیں جو نہ صرف سانحات سے سبق سیکھتی ہیں بلکہ اپنی تباہ حال عمارت کی راکھ پر نئے عزم سے تعمیرِ نو کی بنیاد رکھتی ہیں ۔ اس سلسلے میں جاپان کی مثال ہمارے سامنے ہے ۔ کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ ہو گا کہ اپنے سینے پر دو ایٹم بم کھانے اور بارود سے راکھ ہو جانے والا وہ جاپان ایک دن صنعتی میدان میں پوری دنیا کو پیچھے چھوڑ جائے گا ۔دراصل اس قوم کی ترقی کا راز سانحات اور تاریخ سے سبق حاصل کرنا ہے لیکن ہمارے ہاں حادثات اور سانحات سے عبرت تو کجا ان کی رپورٹس تک دبا دی جاتی ہیں۔ سانحہ مری پر اپوزیشن کی طرف سے جوڈیشل کمیشن کے قیام کے مطالبے سے مجھے بے اختیار ہنسی آگئی اور میں سوچتا رہا کہ قیام پاکستان سے لے کر آج تک پہلے کونسے کمیشن کی رپورٹ منظر عام پر آئی ہے جو اب آئے گی۔سانحہ مری کا ہم اگر بنظرِ غائر جائزہ لیں تو اس سے بھی ہمارے سیکھنے کیلئے کئی پہلو پوشیدہ ہیں جن کو سامنے رکھ کر ہم آئندہ کی منصوبہ بندی کر سکتے ہیں جس سے نہ صرف ہم آئندہ ایسے حادثات سے بچ سکتے ہیں بلکہ آنے والی نسلوں کو بھی محفوظ رکھ سکتے ہیں۔26 سال قبل میں نے مری میں پہلی بار برفباری کا منظر دیکھا جب میں ایک سال قبل اسلام آباد آیا تھا اور میرے ایک دوست نے لاہور سے مجھے فون کیا اور میرے ساتھ مری جانے کی خواہش کا اظہار کیا ۔چنانچہ میں نے فوراً ہاں کر دی ۔غالباً یہ 10جنوری 1997کی صبح تھی جس دن اخبارات کی سرخیاں معروف اداکار سلطان راہی کے قتل سے مزین تھیں اور ہم دونوں دوست بھی سلطان راہی کی ناگہانی موت سے افسردہ تھے اور اس کو یاد کرتے ہوئے مری کی جانب رواں دواں تھے۔میں گرمیوں میں تو اس سر سبز و شاداب وادی کا کئی بار نظارہ کر چکا تھا مگر یخ بستہ سردی میں سفید برف سے لپٹی یہ وادی دلفریب منظر پیش کر رہی تھی اور آگے جوں جوں برف کی یہ چاندی جیسی چادر بڑھتی جا رہی تھی تو اس کی رعنائی اور دلکشی میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔کمپنی باغ سے آگے جا کر ہماری مسافر وین کی رفتار کم ہوتی گئی کیونکہ سڑک پر گاڑیوں کا رش بڑھ چکا تھا ۔کچھ دور جا کر گاڑی کی رفتار رینگنے جیسی ہو گئی۔خدا خدا کر کے جب ہم بانسرہ گلی پہنچے تو ٹریفک بالکل ہی جام ہو گئی۔جب ہم نے نیچے اتر کر دیکھا تو حدِ نگاہ آگے پیچھے گاڑیاں ہی گاڑیاں تھیں۔رات کے دس بج چکے تھے اب ٹریفک بحال ہونے کی امید دم توڑ چکی تھی۔ لوگوں نے مسافر گاڑیوں سے اتر کر مری کی طرف پیدل چلنا شروع کر دیا تھا۔ہم نے بھی عافیت اسی میں جانی کہ پیدل کوچ کیا جائے۔ چنانچہ تین کلو میٹر کا پیدل سفر کر کے ہم جی پی او پہنچے اور کرائے پر کمرہ لیتے ہی بستروں پر دراز ہو گئے ۔بھوک کے مارے برا حال ہو رہا تھا لیکن شدید سردی اور تھکن سے چور ہونے کی وجہ سے باہر جانے کی ہمت ہی نہیں ہو رہی تھی۔رات کے پچھلے پہر میری آنکھ اچانک اس وقت کھل گئی جب میرا دوست سردی سے شدید کپکپا رہا تھا اور اسکے بیڈ کے ساتھ جڑا میرا بیڈ بھی ہلنا شروع ہو گیا ۔میں فوراً ریسیپشن کی طرف دوڑا۔تب کچھ دیر بعد اس کی کپکپی ختم ہوئی اور اسے پسینہ بھی آگیا۔یوں اس طرح ہماری رات کٹی اور دن کو ہم برف باری کی سیاحت کر کے مغرب سے پہلے اسلام آباد واپس روانہ گئے۔26سال بعد اب جب میرے بچے بھی جوان ہو چکے ہیں لیکن یقین کریں کہ اب بچوں کی فرمائش کے باوجود بھی میرا دل برفباری کے دوران مری جانے کو نہیں کرتا کیونکہ مجھے اب تک 26سال پہلے کا وہ شدید سردی میں پیدل سفر اور دوست کی وہ شدید کپکپاہٹ نہیں بھولی۔مجھے وزیراعظم کی اس بات سے اتفاق ہے کہ جب لوگوں کو پتہ تھا کہ برف پڑ رہی ہے موسم کی صورتحال بھی ٹھیک نہیں اور ٹریفک میں بھی رکاوٹ پیش آرہی ہے تو لاکھوں لوگوں نے مری کا رخ کیوں کیا۔اب چاہے لوگ لاکھ ان کی بات کا برا منائیں لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ مری ایک چھوٹا سا وہ سیاحتی مقام ہے جہاں ایک محتاظ اندازے کے مطابق اس وقت صرف 6ہزار گاڑیوں کی گنجائش ہے اور تمام ہوٹلوں میں 10ہزار کے لگ بھگ سیاحوں کے رہنے کا انتظام ہے۔اس سمے 1,64000گاڑیوں کا داخل ہوجا ناایسے المیے کو جنم نہیں ے دے گا تو اور کیا ہو گا۔رہ گئی سیاحوں کو داخل ہونے سے روکنے کی بات تو حکومت اور انتظامیہ رات کی تاریکی میں کس کس کو کس کس جگہ سے ناکے لگا کر روکے گی۔یہ حکومت سے زیادہ ہماری اجتماعی ذمہ داری بنتی ہے کہ خود ہمیں بھی محکمہ موسمیات کی پیشین گوئیوں اور میڈیا پر چلنے والی خبروں کو سنجیدگی سے لینا چاہئے اور جہاں حادثات کا احتمال ہو وہاں سے ہمیں گریز کا پہلو اپنانا چاہئے ۔

مزید پڑھیں:  ایران کے خلاف طاغوتی قوتوں کا ایکا