اومی کرون

قومی سلامتی پالیسی پر اپوزیشن کے تحفظات

تحریک انصاف کی حکومت کی جانب سے پیش کی جانے والی قومی سلامتی پالیسی پر اپوزیشن جماعتوں نے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ مولانا فضل الرحمان کہتے ہیں کہ سیکورٹی پالیسی کی بنیاد پر کشمیر کے ساتھ کھیل کھیلا جا رہا ہے، پیپلز پارٹی کے سیکرٹری جنرل سید نیئر بخاری نے کہا ہے کہ قومی سلامتی پالیسی جیسے معاملے پر پارلیمنٹ کو اعتماد میں لینا چاہیے تھا۔ اپوزیشن رہنمائوں کی طرف سے قومی سلامتی پالیسی پر تحفظات کے اظہارکے بعد اگرچہ وزیر اعظم عمران خان کے مشیر برائے قومی سلامتی ڈاکٹر معید یوسف نے جواب دیتے ہوئے کہا ہے کہ قومی سلامتی پالیسی متفقہ ہے جو تمام سٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے تیار کی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پارلیمانی کمیٹی جب بھی بلائے گی ہم بریفنگ دینے کے لیے تیار ہیں، انہوں نے اپوزیشن کو قومی سلامتی پالیسی پرسیاست نہ کرنے کا مشورہ بھی دیا۔ حیرت اس بات پر ہے کہ اپوزیشن جماعتوں کی شمولیت کے بغیر قومی سلامتی پالیسی کو متفقہ قرار دیا جا رہا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ مشیر قومی سلامتی کی طرف سے پریس کانفرنس اپوزیشن جماعتوں کے تحفظات دور کرنے لیے کافی نہیں ہے کیونکہ قومی سلامتی کا معاملہ محض حکومت کا مسئلہ نہیں ہے، یہ تمام سیاسی جماعتوں اور عسکری قیادت کی باہمی مشاورت سے تیار ہونا چاہیے تھا ، آج حکومت اپوزیشن جماعتوں کو قومی سلامتی پالیسی پر بریفنگ دینے کے لیے آمادہ ہے اگر یہ کام پہلے کر لیا جاتا اور ایوان میں اپوزیشن جماعتوں کی رائے لے لی جاتی تو بہتر ہوتا، مگر ایسا نہیں کیا گیا۔ مسئلہ کشمیر اور افغانستان کے ساتھ معاملات کی نوعیت ایسی ہے کہ جس پر اپوزیشن جماعتوں کی مشاورت ناگزیر ہے، یہی وجہ ہے کہ ماضی میں جب بھی قومی سلامتی پالیسی تشکیل دی گئی تو برسراقتدار حکومت نے سیاسی اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے تمام جماعتوں کا اجلاس طلب کیا، سیاسی جماعتوںکو صورتحال سے آگاہ کیا ، اور اجلاس میں مشترکہ طور پر طے پانے والے نکات کو قومی پالیسی کا نام دیا گیا، تحریک انصاف کی حکومت نے ماضی کی روایت کو ترک کر کے اپنے تئیں قومی سلامتی پالیسی کا اعلان کر دیا ہے جس پر اپوزیشن جماعتیں تحفظات کا اظہار کر رہی ہیں۔ اپوزیشن جماعتوں کا اعتراض بے جا نہیں ہے، حکومت کو ٹھنڈے دماغ کے ساتھ سوچنا ہو گا اور قومی سلامتی جیسے معاملات کو تمام جماعتوں کے اتفاقِ رائے سے تشکیل دینا ہو گا۔
مہلک امراض کیلئے مفت علاج کی سہولت
غریب اور متوسط طبقے کے افراد کے لیے کم آمدن کے باعث کسی بھی بیماری کا علاج انتہائی مشکل ہوتا ہے۔ خاص طور پر مہلک اور جان لیوا بیماریوں کا علاج، جس میں پہلے مرحلے پر ڈاکٹروں کی بھاری فیس ، مرض کی تشخیص کے لیے مختلف نوعیت کے ٹیسٹ اور اس کے بعد انتہائی مہنگی ادویات خریدنے پر ایک بڑی رقم کرنی پڑتی ہے۔کئی دفعہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ ان مہلک امراض کے علاج کیلئے گھر میں موجود زیورات، دیگر قیمتی سامان حتیٰ کہ گھر تک بک جاتے ہیں اس کے بعد بھی مریض کے اہلخانہ لاکھوں روپے کے مقروض ہو جاتے ہیں، لیکن اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوتا کیونکہ وہ اپنے پیاروں کو تکلیف میں نہیںدیکھ سکتے۔ متوسط طبقے کی ان مشکلات کو مدِنظر رکھتے ہوئے خیبر پختونخوا حکومت کی جانب سے کڈنی اور لیور ٹرانسپلانٹ مفت کرنے کا احسن اقدام اُٹھایا گیا ہے جو گردوں کے امراض میں مبتلا افراد کے لیے یقیناً ایک بڑی خوشخبری ہے، اس سے علاج کی سکت نہ رکھنے والے افراد کی قیمتی جانوں کو بچانے میں مدد ملے گی۔اس سلسلے میں اسٹیٹ لائف انشورنس اور پاکستان کڈنی اینڈ لیور ٹرانسپلانٹ انسٹیٹیوٹ لاہور کے درمیان معاہدہ طے پا گیا ہے۔ معاہدے کے تحت خیبر پختونخوا کے عوام ،صوبائی حکومت کے جاری کردہ صحت کارڈ کے ذریعے پاکستان لیور اینڈ ٹرانسپلانٹ انسٹیٹیوٹ لاہور میں مفت علاج کی سہولت حاصل کر سکیں گے۔ صوبائی حکومت لیور ٹرانسپلانٹ پر فی مریض 50لاکھ روپے جب کہ کڈنی ٹرانسپلانٹ پر 14لاکھ روپے فی مریض برداشت کرے گی۔ صوبائی حکومت کی طرف سے کینسر کے مفت علاج کو بھی صحت کارڈ اسکیم میں شامل کرنے کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں، صوبائی حکومت کی طرف سے عوام کو سہولت فراہم کرنے کیلئے یہ اقدام خوش آئند ہیں جنہیں ہر صورت جاری رہنا چاہئے۔
پٹرولیوم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ
تحریک انصاف کی حکومت نے چند روز قبل منی بجٹ پیش کیا ، جس پر سیاسی جماعتوں اور عوام کی جانب سے تحفظات کا اظہار کیاگیا تھا، ان خدشات کے محض تین روز بعد ہی منی بجٹ کے منفی اثرات سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں۔ دو روز قبل بجلی کی قیمت میں چار روپے فی یونٹ اضافہ کیا گیا تھا، اب پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں تین روپے فی لیٹر تک بڑھا دی گئی ہیں۔ اس فیصلے کی قطعی ضرورت نہ تھی کیونکہ اس سے مصائب میں گھرے عوام الناس کی مشکلات میں مزید اضافہ ہو جائے گا ۔ عوام جو پہلے ہی کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں ، ایسی صورت حال میں اُنہیں حکومت کی طرف سے سہارے اور سبسڈی کی ضرورت تھی لیکن حکومت کی طرف سے آئی ایم ایف سے جن شرائط پر مالی معاونت حاصل کی گئی ہے، اُنہیں پورا کرنے کے لیے حکومت عوام کی قوت خرید اور مالی مشکلات کو کُلی طور پر نظر انداز کرتے ہوئے اُن پراضافی بوجھ ڈال رہی ہے ۔پٹرولیوم مصنوعات کی قیمتوں میں ہونے والا حالیہ اضافہ ضروریات زندگی کے نرخوں پر اثرانداز ہو گا۔ یوں روزمرہ کی وہ تمام اشیاء جن میں آٹا، گھی، چینی، دال ، سبزی وغیرہ شامل ہیں جن کے بغیر گزارہ ممکن نہیں، اُن کی قیمتیں مزید بڑھ جائیں گی۔ عوام تحریک انصاف کی حکومت سے امید رکھتے ہیں کہ حکومت اپنی آئینی مدت کے اختتام سے پہلے عوام کیلئے ریلیف کا اعلان کرے گی مگر حکومتی اقدامات ریلیف کے بالکل برعکس دکھائی دے رہے ہیں، اگر مہنگائی میں اضافے کا سلسلہ یونہی چلتا رہا تو عوام کیلئے جسم وجان کا رشتہ برقرار رکھنا مشکل ہو جائے گا۔

مزید پڑھیں:  موت کا کنواں