اومی کرون

اومی کرون : وزارت صحت کا انتباہ

مختلف شہروں میں اومی کرون کے کیسز سامنے آنے کے بعد وزارت صحت نے شہریوں کو احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کے لیے انتباہ جاری کیا ہے، کورونا سے بچائو کے لیے حکومت نے ابتدائی طور پر اندرون ملک پروازوں اور ٹرانسپورٹ میں کھانے کی فراہمی بند کر دی ہے۔ شادی ہالز میں کھانے کے باکس دینے کی ہدایت کی گئی ہے ، عوام مقامات پر ماسک نہ پہننے والوں پر جرمانہ عائد کرنے کا عندہ دیا گیا ہے ، جبکہ سرکار ملازمین کو ماسک کی خلاف ورزی کی صورت میں ایک دن کی تنخواہ کی کٹوتی کی تجویز دی گئی ہے۔ وزارت صحت کی طرف سے کورونا پابندیوں کا اعلان ملک بھر سے 4ہزار 286نئے کیسز سامنے آنے کے بعد کیا گیا ہے۔ ان کیسز میں آدھی تعداد صرف سندھ سے رپورٹ ہوئی ہے۔ کورونا پابندیوں کے حوالے سے حتمی فیصلہ این سی او سی کے اجلاس میں کیا جائے گا ، تاہم حکومت نے عندیہ دیا ہے کہ لاک ڈائون یا سخت پابندیاں عائد کرنے کی بجائے عوام کو ایس او پیز پر عمل درآمد کے لیے کہا جائے گا تاکہ نظام زندگی بھی متاثر نہ ہو اور عوام کو کورونا کے مہلک اثرات سے بھی محفوظ رکھا جا سکے۔
امر واقعہ یہ ہے کہ مغربی ممالک میں کورونا کی نئی قسم اومی کرون کے متاثرین کی تعداد 16ملین سے تجاوز کر چکی ہے ، یوں دیکھا جائے تو اومی کرون تیزی کے ساتھ پھیل رہا ہے ۔ پاکستان نے اومی کرون سے بچنے کے لیے اپنے طور پر بسیار کوشش کی، ایئرپورٹس پر بیرون ممالک سے آنے والے مسافروں کے ٹیسٹ کیے ، جن میں اومی کرون کا شبہ تھا، انہیں قرنطینہ بھی کیا مگر اس کے باوجود اومی کرون کے کیسز سامنے آ گئے ۔ طبی ماہرین کا خیال ہے کہ وبائی صورت حال سے بچنا آسان نہیںہوتا کیونکہ وباء فضاء سے بھی دوسرے ملک تک پہنچ سکتی ہے۔ اسی بنیاد پر شاید حکومت نے کہا ہے کہ اومی کرون کو روکنا آسان نہیں ہو گا۔ لیکن مہلک اثرات سے بچنے کے لیے ہم اپنے طور پر جو کچھ کر سکتے ہیں وہ ہمیںکرنا چاہیے ، اگر ہم نے احتیاطی تدابیر اختیار نہ کیں ، اور جن افراد نے تاحال ویکسین نہیں لگوائی ہے انہوں نے ویکسین لگوانے میں لیت و لعل سے کام لیا تو ہمیں کورونا کے مہلک اثرات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ کورونا کی پہلی لہروں میں پاکستان ہلاکت خیزی سے محفوظ رہا ہے ، پاکستان کے پڑوس بھارت میں کورونا خطرناک ثابت ہوا اور عوام کی بڑی تعداد کورونا سے متاثر ہوئی، سو کورونا کی پہلی لہروں میں تو ہم محفوظ رہے ہیں ، اگر حالیہ لہر میں عوام نے لاپرواہی کی تو خطرات بڑھ سکتے ہیں ۔ ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کراچی میں اومی کرون کی شرح بڑھ گئی ہے ، جسے بعض رپورٹس میں40فیصد بھی کہا جا رہا ہے ، اگر یہ رپورٹ درست ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ کراچی کی آدھی کے قریب آبادی کورونا کا شکار ہو چکی ہے۔ اس قدر بڑی تعداد کو علاج کی سہولیات فراہم کرنا ہمارے لیے آسان نہ ہو گا اور نہ ہی ہمارا شعبہ صحت اس کا متحمل ہو سکتا ہے، اس لیے دیگر صوبوں کو اس سے سبق سیکھ کر قبل از وقت اقدامات اُٹھانے ہوں گے، کیونکہ اگر ہم نے بروقت بندوبست نہ کیا تو پھر ہمارے لیے لاک ڈائون یا سمارٹ لاک ڈائون کے علاوہ کوئی آپشن نہیں بچے گا ۔ گزشتہ دو سالوں کے سرسری جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ ہم معاشی طور پر بہت پیچھے چلے گئے ہیں ، جس سے باہر نکلنے کے لیے ہمیں بہت محنت کرنی ہو گی، اسی طرح کورونا کے دو سالوں میں طلباء کی تعلیم کا بہت حرج ہوا ہے، کیونکہ تعلیمی ادارے بند تھے، اور تعلیم کے لیے آن لائن کا جو متبادل بندوبست کیا گیا اس سے طلباء کی بڑی تعداد مستفید نہیں ہو سکی تھی۔ یوں دیکھا جائے تو طلباء کے تعلیمی نقصان کے بعد اب تعلیمی ادارے معمول کے مطابق کھل رہے ہیں، اگر ہم نے احتیاط نہ کی تو سب سے پہلے طلباء کو محفوظ بنانے کے لیے تعلیمی ادارے بند کرنے پڑیں گے کیونکہ کم عمر بچوں کو کورونا سے محفوظ بنانا اولین ترجیح ہوتا ہے۔ ان خدشات کو مدنظر رکھا جائے تو حکومت کے ساتھ ساتھ سماج کے ہر فرد پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ سنجیدگی کا مظاہرہ کرے، طبی ماہرین نے ماسک کے استعمال کو لازمی قرار دیا ہے تو عوامی جگہوں پر ماسک کے استعمال کو یقینی بنایا جائے، بہت سے لوگ دم گھٹنے کا جواز پیش کر کے ماسک کا استعمال نہیں کرتے ہیں، ایسے لوگوں کو یہ بات سمجھانے کی ضرورت ہے کہ جب وہ تنہا ہوں تو ماسک کا استعمال بھلے نہ کریں لیکن عوامی مقامات پر جانا ہو تو ماسک کے استعمال کو یقینی بنائیں تاکہ ہم دوسروں تک کورونا پھیلانے کا ذریعہ نہ بنیں اور خود بھی کورونا سے محفوظ رہیں۔ اس حوالے سے حکومت کو چاہیے کہ وہ کسی قسم کی تاخیرکیے بغیر کورونا سے نمٹنے کی حکمت عملی کا اعلان کرے، اس ضمن میںجس قدر تاخیر کی جائے گی وہ تباہی کا باعث بنے گی۔

مزید پڑھیں:  ''ظلم دیکھ کر چپ رہنا بھی ظلم ہے''