ہر چارہ گر کو چارہ گری سے گریزتھا

ہمیں معلوم نہیں تھا کہ لوگ اتنے ”چھوٹے” بھی ہوجاتے ہیں ‘ وفاقی وزیر توانائی حماد اظہر نے کہا ہے کہ پرویز خٹک ہمارے بڑے ہیں انہیں بولنے کا حق ہے ‘ گیس کنکشن کے معاملے پر ‘ پرویز خٹک کو بریفنگ دی جس کے بعد وہ مطمئن ہو گئے ‘پرویز خٹک نے بطور عوامی نمائندہ اپنے حلقے میں گیس کا معاملہ اٹھایا تھا ۔ اس حوالے سے ہمیں بہت مدت پہلے تب کے صوبہ سرحد میںجونیجو مسلم لیگ کی حکومت تھی ‘ ہمارے ایک بہت اچھے کرم فرما وزیر تعمیرات کے عہدے پر فائز تھے ‘ وہ ہمارے علاقے رشید ٹائون کی جامع مسجد میں نماز جمعہ ادا کرنے آتے تھے ‘ایک روز نماز کے بعد ہم نے انہیں مسجد کی گلی میں اپنے علاقے کی سڑکوں اور گلیوں کی تعمیر میں متعلقہ محکمے کی غفلت کی شکایت کی ‘ ان کے قریب کھڑے ان کے بعض چمچوں نے ہمیں خاموش رکھنے کی کوشش کی تو ہم نے انہیں ڈانٹتے ہوئے کہا کہ یہ ہمارے چھوٹے ہیں اور ان کے ساتھ اپنے تعلقات کی نوعیت ایسی ہے کہ صرف شکایت ہی نہیں کرسکتے بلکہ انہیں ڈانٹنے تک کا استحقاق بھی ہے اللہ انہیں خوش رکھے ‘ انہوں نے اپنے چمچوں کو خاموش کرتے ہوئے ہمارے دعوے کی تصدیق کی اور کہا شباب صاحب بالکل ٹھیک کہتے ہیں ‘ پھر وضاحت کی کہ دراصل یہ علاقہ اے این پی کے حاجی محمد عدیل (اللہ انہیں غریق رحمت کرے) کا ہے’ اگر میں اپنے فنڈز سے یہاں سڑکوں ‘ گلیوں کی تعمیر کروں گا تو وہ ناراض ہوں گے ‘ میں نے جواب میں کہا ‘ آپ سے شکایت بطور صوبائی وزیر کی ہے’ کہ آپ صرف اپنے حلقے کے وزیر نہیں ہیں ‘ پورے صوبے کے وزیر ہیں اور آپ کافرض ہے کہ بطور صوبائی وزیر عوام کے مسائل حل کریں ‘ اللہ سلامت رکھے ‘ہمارا مان رکھتے ہوئے انہوں نے حاجی عدیل سے کہہ کر رشید ٹائون کی سڑکیں ‘ گلیاں تعمیر کروائیں ‘ اب گزشتہ روز وزیر اعظم اور پرویز خٹک کے درمیان جو تکرار ہوئی اس پر ہم نے اپنے کالم میں پرویز خٹک کی تعریف بھی کی ‘ مگر اب توبات کھل گئی ہے کہ موصوف کو گیس اور بجلی کے حوالے سے پورے صوبے کا کوئی دکھ نہیں تھا بلکہ وہ تو صرف اپنے حلقے کے لئے گیس کنکشن کے طلبگار تھے ‘اور اگر حماد اظہر کی یہ بات درست ہے تو پرویز خٹک کو اتنا گرنے کی ضرورت نہیں تھی ‘ تاہم ہمیں اب بھی یقین نہیں ہے کہ پرویز خٹک نے واقعی اتنی کمتر سطح پر گر کر صرف اپنے حلقے کے لئے ہی گیس کنکشن مانگے ہوں گے ‘ اب ان سے یہ توقع تو نہیں کی جا سکتی کیونکہ جب وہ وزیر اعلیٰ تھے تو لیگ نون کی وفاقی حکومت سے بجلی منافع کی رقم حاصل کرنے کی کوشش کرتے تھے بلکہ گیس بھی آئینی تقاضوں کے مطابق ہی مانگتے تھے ‘ تو اب انہیں کیا ہو گیا ہے کہ بقول حماد اظہر وہ اس نچلی سطح پر اتر آئے ہیں کہ صرف اپنے حلقے کے لئے ہی نئے گیس کنکشنوں کے تقاضے تک ہی محدود ہو گئے ہیں ‘ اگر یہ سچ ہے تو ان سے تو نور عالم خان ہی اچھے ثابت ہوئے ہیں جنہوں نے نہ صرف پورے ملک کے مسائل پر اپنی ہی حکومت کو تنقید کی سان پر رکھتے ہوئے کہا ہے کہ سارے مسائل اسمبلی کی اگلی تین قطاروں میں بیٹھے ہوئے(وزیروں ‘ مشیروں) کی وجہ سے ہیں ‘ ان کے نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں ڈال دیں سب ٹھیک ہوجائے گا’ انہوں نے کہا کہ پشاور کے لوگوں کا کیا قصور ہے؟ انہیں نہ گیس ملتی ہے نہ بجلی ‘ کیا پشاور پاکستان میں نہیں ہے ‘ اور کیا پاکستان میں صرف چار اضلاع سوات ‘ نوشہرہ ‘ صوابی اور میانوالی ہی ہیں؟ نور عالم خان نے جن چار اضلاع کی جانب اشارہ کیا ہے ‘ ان کی موجودہ دور میں ”اہمیت اور افادیت” بہت ہی واضح ہے۔ پشاور صوبے کا مرکزی شہر اور دارالحکومت ہے ‘ اور اگر پشاور کے لوگوں کو گیس اور بجلی کی ترسیل میں ناانصافی کا شکار کیا جارہا ہے تو صوبے کے دیگر اضلاع کے ساتھ کیا ناروا سلوک کیا جارہا ہو گا ‘ اب جہاں تک حماد اظہر کی جانب سے بقول ان کے پرویز خٹک کو گیس کنکشن کے معاملے پر بریفنگ دی جس کے بعد وہ ”مطمئن” ہو گئے تو اس سے تو یہی بات ”اخذ” کی جا سکتی ہے کہ رہنے دیں ‘ زیادہ شور نہ کریں ‘ آپ کے علاقے کو جلد ہی پائپ لائنیں بچھا کر گیس وافر مقدار میں فراہم کر دی جائے گی ‘ اسی طرح بجلی کے ٹرانسفارمر ‘ کھمبے وغیرہ پہنچا کر نہال کر دیا جائے گا ‘ تو اب اس کی وضاحت کی ذمہ داری پرویز خٹک پرعاید ہوتی ہے کہ وہ کیونکر اس فریب کے جال میں پھنس گئے حالانکہ بقول شاعر
غم حیات کے ناگن نے ڈس لیا جن کو
وہ اپنے دور کے مانے ہوئے سپیرے تھے
اگرچہ یہاں علامہ اقبال کافرمایا ہوا بھی بہت ہی وقعت دکھاتے ہوئے سامنے آرہا ہے کہ
دہقان کشت و جوئے و خیاباں فروختند
تومے فروختند و چہ ارزاں فروختند
حقیقت مگر یہ بھی ہے کہ حماد اظہر نے پرویز خٹک کی انتہائی کم قیمت لگاتے ہوئے صوبہ خیبر پختونخوا کے عوام کو”دھوکہ”دینے کی جو شعوری کوشش کی ہے وہ یہ ہے کہ آئین کے تقاضے یہ ہیں کہ جس صوبے میں قدرتی گیس کے منابع موجود ہوں ‘ ان کی پیداوار پر پہلا اور ترجیحی حق صرف اسی صوبے کا ہو گا ‘ بدقسمتی مگر یہ ہے کہ جس طرح صوبہ خیبر پختونخوا کے ساتھ پن بجلی کے معاملات پر طویل عرصے سے زیادتی روا رکھی جارہی ہے اور نہ صرف اے جی این قاضی فارمولے کے تحت آج تک اسے اس کے آئینی حق سے محروم رکھا گیا ہے(اب بھی اربوں کے بقایاجات واپڈا کے ذمے ہیں) ‘ اسی طرح خود وفاق اور واپڈا نے صوبے کے لئے مقررہ کوٹہ بھی پورا نہیں دیا ‘ اور صوبے کے ڈیمز سے حاصل کردہ بجلی مرکز کو پہلے منتقل کیا جاتا ہے بعد میں اسے صوبوں میں تقسیم کرتے وقت خیبر پختونخوا کو اس کے کوٹے سے محروم رکھا جاتا ہے ‘ اسی طرح صوبے کے جنوبی اضلاع سے ملنے والی قدرتی گیس پر بھی مرکز نے تقسیم کے نام پر ”قبضہ” جما رکھا ہے اور آئینی تقاضوں کے برعکس ریفائینری اور تقسیم کار نظام خیبر پختونخوا کے متعلقہ علاقوں میں قائم کرنے کی بجائے صوبے کے ملحقہ بڑے صوبے میں قائم کرکے اس کی تقسیم کو من مرضی کا تابع کیا ہوا ہے ‘ حالانکہ جتنی گیس خیبر پختونخوا پیدا کرتا ہے اس سے نصف سے بھی کم ہماری ضرورت ہے مگر ہمیں اس سے بھی محروم رکھ کر استحصال کا شکار کیا جاتا ہے ‘ بقول فیض احمد فیض
ہرچارہ گر کو چارہ گری سے گریز تھا
ورنہ ہمیں جو دکھ تھے بہت لادوا نہ تھے

مزید پڑھیں:  ڈیٹا چوری اور نادرا؟