مہنگائی کا سیلاب

مشرقیات

ایک زمانہ پہلے پاکستان کا ماحول کچھ اور نوعیت کا تھا۔ بیرون ملک سے سیاح بڑے شوق سے آیا کرتے تھے۔ راولپنڈی’ لاہور اور کراچی کے ساتھ ساتھ پہاڑی علاقے لوگوں کے لیے بڑی کشش رکھتے تھے۔پشاور خاص توجہ کا مرکز تھا۔ درہ خیبر کو دیکھنے کہاں کہاں سے لوگ نہیں آتے تھے۔ پشاور سے لنڈی کوتل ایک ٹرین چلا کرتی تھی’ بڑے شوق سے اس ٹرین کا سفر کیا جاتا تھا۔وہ سب کچھ اب نہیںرہا۔ ان دنوں کی یادیں رہ گئی ہیں اور وہ ذہنی آزادی اب خواب و خیال میں پائی جاتی ہے۔ اس وقت ہم سب ذہنی اعتبار سے دہشت گردی، تنگ نظری اور بے مروتی کا شکار ہیں ۔معاشرتی زندگی کے دوسرے اہم معاملات کے علاوہ ہم سیاحت کو فروغ دینے میں بھی روشن خیال نہیں رہے۔ گزشتہ چالیس سال سے ایک ایسا اندھیرا چھایا ہوا ہے کہ کہیں سے بھی روشنی نہیں آرہی۔ ایسے میں ایک پوری نسل اب جوان ہو چکی ہے ،جو ایک مخصوص طرز کی زندگی گزار رہی ہے۔ صبح سویرے اپنے اپنے دفاتر اور کاروبار کا رخ کرنا،دن بھر مادہ پرستی میں اُلجھے رہنا اور رات کو ٹیلی ویژن کے سامنے بیٹھ کر معاشرتی بگاڑ پہ مبنی ڈرامے دیکھنا یا انتہائی بونے لوگوں کی جھوٹی اور نفرت انگیز باتیں سن کر سو جانا۔ ہاں یوم آزادی کا جشن ہو تو گاڑیوں اور موٹر سا ئیکلوں پہ بیٹھ کر خوب ہنگامہ برپا کیے رہتے ہیں۔سیاح وہاں جاتے ہیں جہاں اُن کے لیے کوئی کشش ہو اور وہ اس میں دلچسپی رکھتے ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کے بہت سے ممالک سیاحوں کی مختلف دلچسپیوں کو مدِنظر رکھتے ہوئے اپنا آپ پرکشش بنانے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔ہم نے تو اپنے لوگوں کو متقی بنانے کے لیے سینما اور تھیٹر بھی ختم کر ڈالے ۔دہشت گردی کے خلاف جنگ نے لوگوں کو گھروں میں محصور کر دیا کہ ہر موڑ پہ ناکا بندی اور پوچھ پاچھ سے عاجز ہو چکے ہیں۔ ایسے میں اگر کوئی بھولے بھٹکے یہاں آبھی گئے تو ہوائی اڈہ کی دُشواریوں سے نکلتے ہی ہر سمت ناکا روکنے پر اپنی شناخت کرانے لگتے ہیں۔ دنیا میں نائٹ لائف کا تصور پایا جاتا ہے۔جس کے بارے یہاں سوچنے والابھی قابل گرفت ہے۔ ہم تو اس ماحول کے عادی ہو چکے ہیں کہ یہ ہمارا ملک ہے اور ہم نے یہاں رہنا ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ باہر سے سیاح یہاں آئیں ، سیاحت کو فروغ ملے اور ڈالر کمائیں تو پھر اپنے آپ اور ماحول کو بدلنے کی ضرورت ہے۔اپنے ماضی کی زندہ روایات سے اس دیس کو سیاحوں کے لیے پر کشش بنا نا ہوگا۔

مزید پڑھیں:  موت کا کنواں