2 128

مشرقیات

علامہ دمیری حیات الحیوان میں فرماتے ہیں کہ ضمام بن اسما عیل کے حالات میں ابو قنبل سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ حضرت امیر معاویہ جمعہ کے دن تقریر کرنے کے لیے منبرپر کھڑے ہوئے اور دوران تقریر آپ نے فرمایا کہ ”اے لوگو! تمام مال ہمارا مال ہے جو مال کہ غنیمت میں حاصل ہوا ، وہ بھی ہمارا ہی ہے ، اس لئے جس کو ہم چاہیں دیں اور جس کو چاہیں نہ دیں ۔ چنانچہ آپ کی تقریر ختم ہوگئی اور آپ کے ان الفاظ کا حاضرین میں سے کسی نے جواب نہ دیا سب خاموش رہے ۔ پھر دوسرا جمعہ آیا اور امیر معاویہ نے تقریر کی اور دوران تقریر وہی الفاظ دہرائے ۔ اس کے بعد تیسراجمعہ آیا ۔ امیر معاویہ نے تقریر شروع کی اور دوران تقریر پھر ان ہی الفاظ کو دہرایا ۔ اس مرتبہ ایک شخص کھڑا ہو گیا اور کہنے لگا کہ ”معاویہ ! خبر دار جو ایسا کہا ، کیونکہ وہ مال ہمارا ہے اور غنیمت بھی ہماری ہے ۔ اس لئے اگر کوئی ہمارے اور اس مال کے درمیان آڑے آئے گا تو ہم اپنی تلواروں کے ذریعے (یعنی آپ سے لڑکر ) اللہ تعالیٰ کو اس معاملے میں حکم بنا دیں گے ۔ ” یہ جواب سن کر امیر معاویہ منبرسے اتر گئے اور اندر چلے گئے اور دروازہ بند کر لیا ۔ اس کے بعد اس آدمی کو بلوایا ۔ کچھ دیر بعد تمام دروازے کھول دیئے گئے اور تمام حاضرین کو اندر بلوایا گیا ۔ چنانچہ جب لوگ اندر داخل ہوئے تو دیکھا کہ وہ شخص خلیفہ کے پہلو میں تخت پر بیٹھا ہوا ہے ۔ امیر معاویہ نے لوگوں کو مخاطب کرکے کہا کہ لوگوں ، اس شخص نے مجھ کو زندہ کر دیا ۔ اللہ اس کو زندہ رکھے ۔ میں نے رسول اللہ ۖ کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ میرے بعد ایسے آئمہ آئیں گے کہ اگر وہ کوئی (ناجائز ) بات زبان سے نکالیں گے تو کوئی ان کا جواب دینے والا نہ ہوگا ۔ چنانچہ ایسے لوگ (آئمہ ) اس طرح جہنم میں داخل ہوں گے ،جس طرح کہ بندر آگے پیچھے کسی جگہ میں داخل ہوتے ہیں۔ ”جب میں نے پہلے جمعہ کو وہ الفاظ کہے تھے تو کسی نے مجھ کو نہیں ٹوکا تھا ، تو اس سے مجھ کو اندیشہ ہو ا کہ کہیں میں بھی ان ہی آئمہ میں شمار نہ ہوں ۔پھر جب تیسرا جمعہ آیا تو میں نے پھر الفاظ کا اعادہ کیا تو یہ شخص اٹھا اور اس نے میری تردید کی ۔ اس کی اس تردید نے مجھ کو (گویا ) مردہ سے زندہ کردیا اور مجھ کو یقین آیا کہ (اللہ کا شکر ہے )میں ان آئمہ السوء میں سے نہیں ہوں ۔(حیات الحیوان جلد دوم)
ایک روز یزید رقاشی حضرت عمربن عبد العزیز کے پاس گئے تو حضرت عمر نے انہیں کوئی نصیحت کرنے کو کہا ۔ انہوں نے فرمایا : اے امیر المومنین ! آپ پہلے خلیفہ نہیں ہیں جو مریں گے ۔ آ پ سے پہلے بھی کئی خلیفہ گزرے ہیں ، جو وفات پا چکے ہیں ۔ اے امیر المومنین ! آپ کے اور آپ کے دادا حضرت آدم کے درمیان جتنے باپ ہیں ، ان میں اس وقت کوئی زندہ نہیں ۔ عمر پھر روئے اور مزید نصیحت کی درخواست کی تو فرمایا : جنت اور دوزخ کے درمیان اور کوئی منزل نہیں ۔ یہ سن کر حضر ت عمر بن عبدا لعزیز بے ہوش ہو کر گر پڑے اور کافی دیر تک بے ہوش رہے ۔
(اولیاء اللہ کے اخلا ق صفحہ نمبر 43)

مزید پڑھیں:  جگر پیوند کاری اور بون میرو ٹرانسپلانٹ سنٹرز کا قیام