3 64

آٹا’ چینی کے بعد پاور سیکٹر سکینڈل

آٹا اور چینی کے بعد پاور سیکٹر سکینڈل بھی سامنے آگیا اور وزیراعظم عمران خان کو پیش کی جانے والی رپورٹ کے مطابق پاور کمپنیوں کیساتھ کئے جانے والے معاہدوں کے نتیجے میں سالانہ سو ارب روپے کا ٹیکہ قوم کو لگایا جا رہا ہے’ ہر پلانٹ کی قیمت 15ارب تک اضافی بتا کر بھاری ٹیرف وصول کیا جاتا رہا ہے جبکہ پاور پلانٹس 15فیصد کے بجائے 50تا 70 فیصد منافع وصول کرتے رہے’ کول پاور پلانٹس کی لاگت بھی 30ارب زیادہ ظاہر کی گئی یوں 1994ء کے بعد آئی پی پیز کے مالکان نے بھی 350ارب روپے غیر قانونی طور پر وصول کئے۔ ڈالرز میں گارنٹڈ منافع کی وجہ سے قومی خزانے کو نقصان پہنچا، یہ ایک چشم کشا صورتحال ہے، اب دیکھتے ہیں کہ اس رپورٹ کی روشنی میں کتنے چہرے بے نقاب ہوتے ہیں تاہم اس کی آڑ میں چینی اور آٹے سکینڈلز کی زد میں آنے والوں کو ” بچانے” کی کوئی تدبیر نہیں ہونی چاہئے کہ ماضی میں اکثر ایسا ہوتا رہا ہے اور یا تو کسی اور سکینڈل کی وجہ سے پہلے والے سکینڈلز پر دبیز پردے ڈالنے کی کوششیں کی گئیں یا پھر رپورٹس کو ہی سردخانے میں ڈال کر قومی مجرموں کو صاف بچا لیا گیا۔ بقول انور مسعود
یہی معیار تجارت ہے تو کل کا تاجر
برف کے باٹ لئے دھوپ میں بیٹھا ہوگا
پاور سکینڈل تو اب بے نقاب ہوا ہے حالانکہ اس پر راقم گزشتہ کئی برس سے وقتاً فوقتاً اظہار خیال کرتا رہا ہے اوراس حوالے سے میرے کئی کالم گواہی دیں گے۔ اس سلسلے میں سب سے بڑا ظلم جو اس غریب قوم کیساتھ کیا گیا ہے ( جس کی نشاندہی تازہ رپورٹ میں بھی کی گئی ہے) کہ آئی پی پیز کیساتھ جتنے کلوواٹ کے معاہدے ہوئے خواہ وہ جنریٹ ہوئے یا نہیں’ کمپنیوں کو معاوضہ ادا کرنا لازمی تھا’ چونکہ بجلی پیدا کرنے کیلئے فیول مہیا کرنے کی ذمہ داری ہم پر ہے اسلئے گنجائش کے مطابق اگر ہم فیول مہیا کرنے میں ناکام رہے تو مقررہ ادائیگی پھر بھی لازمی تھی گویا آئی پی پیز نے جو معاہدے کئے ان میں چت بھی میری پت بھی میری کا اصول کار فرما رہا۔ اگر ہم نیفیولمقررہ مقدار میں بہم پہنچایا تو اتنی بجلی حاصل کرلی گئی تاہم دوسری صورت میں کم بجلی کی بھی اتنی ہی قیمت ادا کی گئی جتنے کا معاہدہ ہوگیا تھا اور آئی پی پیز بغیر پوری محنت کئے پوری قیمت وصول کرکے مزے میں رہیں جبکہ ان معاہدوں میں مبینہ کک بیکس اور کمیشن خوری بھی عروج پر دکھائی دے رہی ہے’ جن لوگوں نے ملک وقوم پر یہ ظالمانہ معاہدے تھوپے ان کے ”مکروہ” چہرے ویسے تو لوگ اچھی طرح جانتے ہیں تاہم بہتر یہ ہوگا کہ انکوائری رپورٹس کو سامنے لاکر ان کو مکمل طور پر نہ صرف بے نقاب کیا جائے بلکہ ان سے قومی خزانے کو پہنچنے والے نقصان کا ازالہ کرنے کیلئے ضروری اقدامات بھی اُٹھائے جائیں۔
ستم تو یہ کہ ہماری صفوں میں شامل ہیں
چراغ بجھتے ہی خیمہ بدلنے والے لوگ
پاور سیکٹر سکینڈل کی تفصیلات کب سامنے آتی ہیں اور ان میں ملوث افراد کے چہرے کب بے نقاب ہوتے ہیں تاہم جیسا کہ اوپر کے سطور میں عرض کیا ہے کہ اس کی آڑ میں آٹا اور شوگر سکینڈلز میں ملوث افراد کو بچانے کی کوشش نہیں ہونی چاہئے کیونکہ اس سکینڈل کے فارنزک رپورٹس تک ”کارروائی” کو التواء میں ڈالنے کے بارے میں حزب اختلاف کی جانب سے سخت اعتراضات سامنے آرہے ہیں اور سکینڈل سامنے آنے کے بعد جس طرح وفاقی کابینہ میں رد وبدل کے اقدامات کے بعد ایک یوٹرن نے حزب اختلاف کے خدشات کو بہت حد تک درست قرار دے دیا ہے اور جن لوگوں کو پہلے نکالا گیا انہیں دوبارہ دیگر عہدوں پر فائز کرنے سے مبینہ طور پر اصل ذمہ داروں کو بچانے کی بنیاد رکھ دی گئی ہے اس حوال سے تازہ ترین اطلاعات شوگر سکینڈل میں بھی بے نامی اکاؤنٹس سامنے آگئے ہیں۔ سو دیکھتے ہیں کہ اب یہ سلسلہ کہاں جا کر رکتا ہے’ جن لوگوں کے نام سامنے آچکے ہیں ان کو بچانے کی تدبیریں کرتے ہوئے سارا ملبہ بے نامی اکاؤنٹس پر ڈالا جاتا ہے یا پھر اصل کرداروں ہی کو ذمہ دار قرار دے کر قابل مواخذہ بنایا جاتا ہے کیونکہ شوگر سکینڈل کے ایک اہم مبینہ کردار جہانگیر ترین نے جہاں تحقیقاتی رپورٹ پر سوال اُٹھانے شروع کر دئیے ہیں ساتھ ہی انہوں نے اپنی ہی جماعت کے حوالے سے بھی ” زبان” کھول کر اصل ”حقائق” سے پردہ سرکانا شروع کردیا ہے۔ اس کے نتیجے میں بعض اطلاعات کے مطابق انہیں راضی کرنے کی کوششیں بھی شروع کردی گئی ہیں اس لئے اگر واقعی بقول حزب اختلاف کی جماعتوں کے رہنماؤں کے فارنزک رپورٹ میں صورتحال ایک بار پھر تبدیل ہوتی ہے یعنی ابتدائی رپورٹ پر یوٹرن لے لیا جاتا ہے تو پھر کیا ہوگا؟
ایک جانب مختلف سیکٹرز میں اُبھرنے والے سکینڈلز ہیں تو دوسری جانب کرونا وائرس سے پیدا ہونے والی صورتحال کے حوالے سے بیروزگار ہونے والوں کے مسائل ہیں اور دکھ اس بات کا ہے کہ امدادی رقوم کی تقسیم کے دوران بعض جگہوں پر ضرورت مندوں سے بعض عاقبت نااندیش جس طرح کمیشن حاصل کر رہے ہیں اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ہم لوگ ذہنی طور پر انسانیت کے مقام سے کتنی پستی میں گر چکے ہیں کہ ہمیں اللہ کا خوف ہی نہیں رہا پھر ہم اس وبا سے نجات کی دعائیں کس برتے پر مانگ رہے ہیں؟
بڑھتے بڑھتے اپنی حد بڑھ چلا دست ہوس
گھٹتے گھٹتے ایک دن دست دعا رہ جائے گا

مزید پڑھیں:  سرکاری و نجی ہائوسنگ سکیموں کی ناکامی