1 96

ٹائیگر فورس کو کارآمد بنانے کی ضرورت

اس وقت دنیا ایک ایسی آفت اور وباء کا سامنا کر رہی ہے جس کیلئے وہ ہرگز تیار نہ تھی اور نہ ہی اس کی ابتداء ہونے پر اُن ملکوں نے کوئی خاص توجہ دی جہاں یہ دیر سے پہنچی اور یوں اس وائرس کو کھل کر کھیلنے کا موقع مل گیا اور یہ مسلسل تباہی مچاتا چلا جا رہا ہے۔ دنیا کا کوئی ملک چاہے بڑا ہو یا چھوٹا اس سے محفوظ نہیں اور اس نے وہاں کم یا زیادہ اپنے اثرات ضرور مرتب کئے ہیں اورتقریباً دنیا کے ہر ملک میں اموات ہوئی ہیں۔ اس وقت تک اللہ تعالی کے کرم سے پاکستان اموات کے لحاظ سے کم متاثر ممالک میں شامل ہے لیکن تشویش کی بات یہ ہے کہ یہ تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے اور خطرہ ہے کہ اگر یہی رفتار رہی تو یہ تعداد ایک ماہ کے اندر اندر بہت بڑھ سکتی ہے۔ اس وقت دنیا نہ صرف اس وباء سے جنگ میں مصروف ہے بلکہ اس کے دوسرے اثرات بھی مرتب ہو رہے ہیں۔ سب سے زیادہ معیشت کو خطرہ لاحق ہے کیونکہ اس وقت دنیا لاک ڈاؤن کی صورتحال میں ہے، معاشی سرگرمیاں معطل ہیں اور چونکہ کارخانے اور کاروبار بند ہیں لہٰذا یومیہ اُجرت پر کام کرنے والے بیروزگار بیٹھے ہیں اور ظاہر ہے کہ ان کے روزانہ کے معاملات اسی روزانہ کی اُجرت سے چلتے ہیں لہٰذا وہ شدید مشکلات کا شکار ہوئے اور اسی لئے ہر حکومت نے ان کیلئے کوئی نہ کوئی بندوبست کیا ہے۔ حکومتِ پاکستان نے بھی ان لوگوں کیلئے احساس پروگرام کے تحت کام شروع کیا ہے اور مستحقین کو تین ماہ کیلئے چار چار ہزار دینے کا اعلان کیا ہے، یہ ایک بہت وسیع پروگرام ہے کیونکہ ملک کی ایک بڑی آبادی غربت کی لکیر کے نیچے یا آس پاس موجود ہے لہٰذا ان کیلئے معمولات زندگی چلانا مشکل ہو گیا ہے اور انہی انتہائی ضروریات کو مدِنظر رکھ کر اس امداد کا اعلان کیا گیا ہے۔ یہ ایک مشکل کام ہے کیونکہ ملک کے ڈیٹا بیس میں ایسا کوئی ریکارڈ موجود نہیںکہ کتنے لوگ یومیہ اُجرت یعنی دیہاڑی پر کام کر رہے ہیں اور یہ کہ کتنے لوگ ان پر انحصار کرتے ہیں لہٰذا اس کام میں انتہائی محنت بھی درکار ہے اور احتیاط بھی کیونکہ افسوس کیساتھ لیکن کہنا پڑتا ہے کہ جب بھی کوئی امدادی کام ہوتا ہے اس میں دو طرح سے مسائل پیدا ہوتے ہیں یہ بھی کہ تقسیم انصاف کیساتھ نہیں ہوتی بلکہ ذاتی تعلقات کو بھی مدِنظر رکھا جاتا ہے اور امداد کی رقم پوری پوری حقدار تک نہیں پہنچائی جاتی بلکہ اس میں سے بہت کچھ ”اِدھر اُدھر” ہو جاتی ہے اور تقسیم کاروں کی جیبوں میں چلی جاتی ہے۔ دوسری طرف یہ بھی ہوتا ہے کہ لینے والے کئی کئی ناموں سے کئی کئی بار یہ امداد وصول کر لیتے ہیں اور مزید افسوس سے لیکن یہ بھی سچ ہے کہ پھر یہ امدادی سامان مارکیٹوں اور بازاروں میں دستیاب ہوتا ہے یعنی اتنی زیادہ مقدار میں لے لیا جاتا ہے کہ ضرورت سے زیادہ سامان بیچ دیا جاتا ہے۔ اب ان تمام حقائق کو مدنظر رکھ کر اس امداد کی تقسیم ہونی چاہئے۔ اگر سامان دیا جائے تو بھی دیکھا جائے کہ ایک آدمی یا گھرانہ کتنا وصول کر چکا ہے اور اگر نقد رقم دی جائے تو بھی جانچ پڑتال ضروری ہے کہ ایک ہی ولدیت کے کتنے لوگ یہ رقم لے چکے ہیں اور کیا یہ واقعی الگ الگ کنبے رکھتے ہیں یا ابھی غیرشادی شدہ ہیں اور کوئی خاندان ان کے زیرکفالت ہے یا یہ خود زیرکفالت ہیں، یہ تو وہ چند احتیاطیں ہیں جو انتہائی ضروری ہیں۔ اب ذرا آئیے کہ اس پروگرام کو کس نیت سے چلایا جائے جیسا کہ وزیراعظم نے ٹائیگر فورس کے ارکان سے کہا کہ اُن کے پاس موقع ہے کہ وہ اپنا حلقہ ساری زندگی کیلئے اپنے نام کرلیں ترغیب کی حد تک بات مانی جاسکتی ہے کہ اس طرح ایمانداری سے کام کرنے کی ترغیب دی جائے لیکن اس وقت یہ بہت ضروری ہے کہ سیاسی مقصد سے بالاتر ہو کر صرف قومی جذبے سے کام کیا جائے قومی جذبے سے کام ہوگا تو سیاسی مقاصد بھی خودبخود حاصل ہو جائیں گے لیکن ایک اچھے کام کو سیاست کی بھینٹ نہ چڑھایا جائے جیسا کہ وزیراعظم نے اسے حکومت میں شامل لوگوں کیلئے ”ایک موقع” قرار دیاویسے یہ بات خوش آئند بھی ہے کہ اب تک اس فورس میں ہر مکتبۂ فکر کے نوجوان شامل ہو چکے ہیں۔ پھر حکومت کو یہ بھی بندوبست کرنا چاہئے کہ یہ لوگ اس بیماری سے محفوظ رہ سکیں اور اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ یہ رضاکار کام کے دوران کرونا سے بچاؤ کی تمام تدابیر بروئے کار لائیں اور امداد کی تقسیم کیساتھ ساتھ لوگوںکو اس وائرس سے بچاؤ کے بارے میں آگاہی بھی دیں، اس طرح ایک تیر سے دو شکار ہوں گے اور خدا نخواستہ وائرس کے زیادہ پھیلاؤ کی بجائے اس کو کنٹرول کیا جا سکے گا۔ اس وقت جو بھی طریقۂ کار ہو اس وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کیلئے اختیار کرنا چاہئے۔ اس رضاکار فورس کو کارآمد بنانے کی ضرورت ہے تاکہ ہم اس وباء اور اس کے اثرات پر قابو پا سکیںاور اس کیلئے جو بھی موزوں مشورہ دیا جائے اسے بغیر کسی سیاسی مخاصمت کے قبول کیا جائے بلکہ اگر علاقے کے حساب سے کوئی الگ الگ طریقہ اختیار کرنا پڑے اور اس سے بہتر نتائج برآمد ہوں تو بھی اسے اختیار کر لینا چاہئے اور اگر نقد رقم کیلئے اختیار کیا گیا طریقۂ کار اشیائے ضروریہ سے الگ رکھا جانا ضروری ہو تو ایسا بھی کر لینا چاہئے جیسا کہ ایک مشورہ یہ دیا گیا کہ علاقے یا گاؤں کے کریانہ سٹور کو ضرورت مندوں کی فہرست فراہم کی جائے اور بتا دیا جائے کہ کس کو کتنا دینا ہے چونکہ یہ کریانے والے پورے گاؤں کو جانتے ہیں لہٰذا ایک ہی گھر کے افراد بار بار آکر ان سے سامان یا پیسے وصول نہ کر سکیں گے۔ ایک تجویز یہ بھی دی گئی کہ ان لوگوں سے شہروں کی صفائی اور سپرے وغیرہ کروا دیئے جائیں اور انہیں معاوضہ دیا جائے، یوں بھی یہ واضح ہو جائے گا کہ یہ لوگ واقعی دیہاڑی دار اور ضرورت مند ہیں، یوں کسی کی اَنا مجروح ہوئے بغیر کام کے بدلے انہیں معاوضہ مل جائے گا۔ اسی طرح کی اور تجاویز بھی سامنے آئیں تو بروئے کار لانے میں کوئی حرج نہیں سمجھنا چاہئے جیسا کہ ہمارے ہاںرواج ہے کہ کسی سیاسی مخالف کا بہت اچھا مشورہ ماننے سے بھی صرف اپنی اَنا اور ناک کی خاطر انکار کر دیا جاتا ہے۔ اس وقت مقصد کرونا کی وباء کی وجہ سے آنے والے بحران سے بہتر طور پر نمٹنا ہونا چاہئے نام ونمود کا حصول نہیں اور اس کیلئے حکومت اپنا دل کھلا رکھے۔

مزید پڑھیں:  موسمیاتی تغیرات سے معیشتوں کوبڑھتے خطرات