2 136

ڈاکٹروں کو سیلوٹ نہیں چاہئے

ہمارے عوام نے چند روز قبل جب گلی گلی کوچہ کوچہ ڈاکٹر اور نرسز کو دیکھ کر سیلوٹ مارنا شروع کیا توخود معالجین کو بھی فوراً اس مہربانی پر شک ہونے لگا کہ آخر لوگ راتوں رات ان پر اتنا مہربان کیوں ہو رہے ہیں؟ یکسر بدلتے ہوئے اس روئیے سے خوشامد کی شدید بو آرہی تھی تو ڈاکٹرز بھی فوری طور پر سمجھ گئے کہ کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے۔ آج کل جب ہر بات کرونا (کورونا) وائرس سے شروع ہوکر کرونا ہی پر ختم ہوتی ہے تو ڈاکٹرز کو بھی سراغ لگانے میں دیر نہیں لگی۔ انہیں پتہ چل ہی گیا کہ اچانک بدلتے ہوئے اس گرم جوش روئیے کے پیچھے بھی کرونا ہی کا ہاتھ ہے۔ سیدھی سی بات یہ ہے کہ لوگ مرنا نہیں چاہتے۔ ہم میں سے اکثر وہ لوگ ہیں جو مرنے سے ڈرتے ہیں اور باقی وہ لوگ ہیں جو سچ پوچھئے تو مرنے کیلئے تیار نہیں ہوتے۔ ہم نے ایسے ”بہادر” لوگ بھی دیکھے ہیں جو کہتے ہیں کہ وہ مرنے سے ڈرتے نہیں بلکہ وہ مرنے کیلئے بالکل تیار ہیں اور اپنے خالق حقیقی سے ملنے کو تڑپ رہے ہیں لیکن ایسے نڈر لوگ بہت کم ہوتے ہیں۔ ہم بات کر رہے ہیں عوام کی۔ عوام کے مسئلے ذرا مختلف ہیں، عوام کو مرنے کا شوق نہیں ہوتا لیکن ان کیلئے جینا بھی آسان نہیں۔ لوگ شاید طبعی بیماری یا موت سے نہیں ڈرتے بلکہ وہ مرنے کے معاشی ومعاشرتی پہلوؤں کا سوچ کر گھبرا جاتے ہیں۔ اگر آپ شادی شدہ ہیں تو بیوی کے بیوہ ہونے اور بچوں کے یتیم ہونے کا سوچ کر رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ گھر کا کرایہ کون دے گا؟ بچوں کے سکول کی فیس کون بھرے گا؟ پھر ایک دن یہ ہوا کہ کرونا نے اس تمام پلاننگ پر پانی پھیر دیا۔ ایک دن وہ بھی تھا جب ہم نے سنا کہ چین میں ایک وبا کی وجہ سے لوگ مر رہے ہیں۔ ہم نے یہ کہہ کر بات ٹال دی کہ جو لوگ کتے اور بلی کھاتے ہیں، ان پر تو ایسا ‘عذاب’ آہی جائے گا۔ پھر یہ مسئلہ ہمارے مغربی پڑوسی ملک پہنچ گیا۔ ہم نے پھر بھی زیادہ توجہ نہیں دی۔ کرونا ہمارے ہاں بھی پہنچ گیا۔ لوگوں کو پتہ چلا کہ یہ مصیبت تو واقعی سر پر آگئی ہے۔ تعلیمی ادارے اوردفاتر بند کئے گئے۔ ایسا لگا جیسا کہ سرکاری سطح پر اعلان ہوا ہو کہ اب سب مرنے کی تیاری کرلیں۔ توبہ کرنے کا موقع بھی نہیں دیا گیا۔ مساجد پر تالے لگائے گئے، جب کفن خریدنے کا خیال آیا تو پتہ چلا کہ کفن فروشوں کی دکانیں بھی لاک ڈاؤن کی وجہ سے بند ہوگئی ہیں۔ پھر لوگوں کو ایک خیال آیا کہ خدا کے بعد اگر کوئی ہمیں اس وبا سے بچا سکتا ہے تو وہ ڈاکٹرز اور نرسز ہیں۔ بس پھر ہونا کیا تھا؟ لوگوں نے ڈاکٹرز کو سیلوٹ مارنا شروع کر دیا اور یہی ہے ڈاکٹرز کو سیلوٹ مارنے کی مختصر تاریخ۔ ڈاکٹرز ہم عوام کی طرح جذباتی لوگ نہیں ہیں۔ وہ (یا کم ازکم ان کی اکثریت) جوش کی بجائے ہوش سے کام لیتے ہیں۔ ان کا کام ہی کچھ ایسا ہے کہ وہ جذباتی ہونے کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ سوچیں اگر ڈاکٹرز کو آپریشن تھیٹر سے ڈر لگے تو پھر مریضوں کا کیا ہوگا؟ اگر ڈاکٹر مایوس ہوں تو ہمارے کانوں میں ”اللہ خیر کرے گا” کون کہے گا؟ اگر ڈاکٹر رونا شروع کر دیں تو مرنے والوں کے لواحقین کو گلے لگا کر تسلیاں کون دے گا؟ جب عوام نے ڈاکٹرز کو سیلوٹ مارنا شروع کیا تو انہیں پتہ تھا کہ یہ ایک جذباتی اور وقتی فیصلہ ہے۔ جب تک کرونا کا خوف سر پر منڈلاتا رہے گا تب تک لوگ سیلوٹ مارتے رہیں گے اور جب یہ خطرہ ٹل جائے تو یہ کہہ کر گھر روانہ ہوں گے کہ ”اللہ پاک نے ٹھیک کرنا تھا، تو کر دیا۔ اب اس میں ڈاکٹر نے کونسا احسان کیا ہے؟ ڈاکٹر نے پیسے لئے اور اپنا کام کیا۔ بات ختم” ڈاکٹرز نے کہا چلو اگر آپ اس بات پر بضد ہیں کہ ہماری خدمات کو خراج تحسین پیش کریں تو ہم پر ایک احسان یہ کر دیں کہ ہمیں سیلوٹوں کی بجائے ماسک، گاؤن اور تحفظ فراہم کرنیوالے آلات فراہم کروا دیں تاکہ ہم اپنا کام بخوبی کرسکیں۔ کوئٹہ میں ڈاکٹر اس لئے زیادہ بے چین ہو رہے تھے کہ وزیراعلیٰ تفتان کے تمبو اور ایمبولینس کی تصویریں تو ٹویٹ کر رہے تھے لیکن ڈاکٹر جن بنیادی ضروریات کا مطالبات کر رہے تھے حکومت انہیں سنجیدگی سے نہیں لے رہی تھی۔ ایک دن ایسا ہوا کہ ڈاکٹر تو اپنی جگہ پر شیخ زید ہسپتال میں تعینات سیکورٹی گارڈ نے بیساختہ کہہ دیا: ”ابے کیا ہسپتال ایسے ہوتا ہے؟ کیا کرونا کا علاج ایسے کیا جاتا ہے؟ یہ کیسا ہسپتال ہے جہاں کوئی روک ٹوک نہیں ہے۔ لوگ بغیر کسی روک ٹوک کے گھوم پھر رہے ہیں۔ کسی کے آنے پر پابندی ہے اور نہ جانے پر۔” پھر جعلی سیلوٹ کے حوالے سے ڈاکٹرز کے خدشات سچ ثابت ہوئے۔ ہمارا سیلوٹ عارضی تھا۔ ڈاکٹرز پر ڈنڈے برسے، جیل کے دروازے کھول دئیے گئے۔ حکومت نے اپنی نااہلی چھپاتے ہوئے ڈاکٹرز پر یہ الزام لگایا کہ وہ کسی مافیا کے ہاتھوں استعمال ہو رہے ہیں۔ کرونا کیخلاف غالباً اصل جنگ ابھی تک شروع نہیں ہوئی ہے۔ یہ جنگ شدت اختیار کرے یا نہ کرے، ایک بات طے ہے کہ ڈاکٹرز کو ہمارے جذباتی اور وقتی سیلوٹ کی ضرورت نہیں ہے۔ انہیں فوٹو سیشن اور سرکاری پریس ریلیز اور ٹویٹس میں شامل ہونے کی خواہش نہیں ہے۔ ڈاکٹرز کو ان بنیادی آلات ولوازمات کی ضرورت ہے جن سے وہ مریضوں کا ایسے علاج کریں کہ خود ان کی اپنی زندگیاں خطرہ سے دوچار نہ ہوں۔ زندہ اور تندرست رہنے کی خواہش کرتے کرتے ہم اکثر یہ بھول جاتے ہیں کہ ڈاکٹرز بھی ہماری طرح انسان ہیں اور زندہ اور صحت مند رہنا ان کا بھی اتنا ہی حق ہے جتنا ہمارا۔ ایک ملک کے صحت مند ہونے کیلئے لازمی ہے کہ اس کے ڈاکٹرز زندہ اور سلامت ہوں، ان کی تمام پیشہ وارانہ ضروریات پوری ہوں۔ جو قوم اپنے ڈاکٹرز کو جیلوں میں ڈالتی ہے وہ یقیناً ایک لاعلاج مرض کا شکار ہے۔

مزید پڑھیں:  بارش سے پہلے چھت کا انتظام کیوں نہیں؟