1 98

جزوی لاک ڈاؤن میں 2ہفتے کا اضافہ

پہلے ایک لطیفہ سن لیجئے ”جزوی لاک ڈاؤن میں 2 ہفتے کی توسیع کے اعلان میں جن کاروبار کے کھولنے کی اجازت شامل ہے ان میں درزیوں کی دکانیں بھی شامل ہیں، فقیر راحموں نے ایک دوست سے پوچھا! رانا صاحب کپڑے کی دکانیں بند اور درزیوں کی کھلیں گی یہ کیا بات ہوئی؟ رانا صاحب بولے کفن بھی تو سلوانے ہوں گے”۔ آگے بڑھتے ہیں، لسانی اور مسلکی تعصب ایسی بلائیں ہیں کہ اچھے بھلے انسان اور ادارے اس کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں، پھرتماشا یہ ہوتا ہے کہ آدمی ایک ارب آٹھ کروڑ کی رقم کو آٹھ ارب پڑھ کر جگتیں مارتا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا پرائم ٹائم میں ٹی وی چینلوں پر ہوئے ملاکھڑوں میں شریک متحارب جماعتوں کی شخصیات ”پورا سچ” بولتی ہیں؟ بہت ادب سے کہوں! جی بالکل نہیں۔ لگ بھگ چالیس برسوں سے ہم دیکھ سن پڑھ اور سمجھ رہے ہیں ہمارے اچھے بھلے’ ‘دانائوں” کی دانائی کا رزق وہ کچی پکی خبریں اور تجزیئے ہیں جن کا سرپیر ہوتا ہے نا حقیقت، بس میڈیا منیجری کا شاہکار ہوتی ہیں۔ ایک صاحب ہوتے تھے افتخار محمد چودھری وہ چینلوں کے ٹکرز اور اخبارات کی سرخیوں پر سوموٹونوٹس لے لیا کرتے تھے، روڈیک منصوبہ پر ان کے سوموٹونے جو گل کھلائے اور جو بوجھ پاکستان پر ڈالا، اس کا اندازہ ٹیکسوں سے پنشن حاصل کرنے والے چودھری کو آج بھی نہیں۔ عرض یہ کرنا ہے کہ دانائوں اور اداروں کو تعصب سے نہیں زمینی حقائق پر بات کرنی چاہئے، مثال کے طور پر کل جزوی لاک ڈائون کے اعلان کیلئے وزیراعظم کے مشیر ڈاکٹر مرزا نے کورونا سے پیدا شدہ صورتحال کے حوالے سے پنجاب اور سندھ کا موازنہ کرتے ہوئے بدترین تعصب کا مظاہرہ کیا۔ وفاق میں ایک اہم عہدے پر فائز شخص صرف سیاسی مخالفت یا اپنے مالک کی خوشنودی کیلئے حقائق کو اس طور مسخ کرے گا تو ہم عام شخص سے کیا توقع کریں گے۔ظفر مرزا اس کمیٹی کے رکن ہیں جس نے کل منگل کی شام تصدیق کی کہ اس وقت ملک میں کوروناسے متاثر کل مریض5990ہیں، ان میں 2945پنجاب میں،1518سندھ میں، 865خیبرپختونخوا میں، 248 بلوچستان میں، گلگت اور آزاد کشمیر میں 280اور اسلام آباد میں131ہیں۔ سندھ اور پنجاب میں مریضوں کی تعداد میں 1400مریض پنجاب میں زیادہ ہیں۔ بدقسمتی یہ ہے کہ سندھ کے حوالے سے اسی طرح کے تعصب کا شکار ہمیں وہ ادارے بھی دکھائی دیتے ہیں جنہیں عوامی سطح پر تھوڑا بہت احترام اب بھی حاصل ہے۔ افسوس صد افسوس کہ کورونا وائرس کی وبا سے پیدا شدہ صورتحال بھی ہمیں انسان نہ بناسکی۔
منگل کی سپہر وزیراعظم نے لاک ڈائون کیلئے جزوی لاک ڈائون کے الفاظ استعمال کئے، انہوں نے تفصیل کیساتھ اس حوالے سے تقریباً وہی باتیں کیں جو روزاول سے کہتے چلے آرہے ہیں، عالمی ادارہ صحت کے اس او پیز اور ہماری جزوی لاک ڈائون پالیسی کو ملا کر پڑھنے کی زحمت کیجئے چودہ نہیں پندرہ طبق روشن ہو جائیں گے۔ اُدھر کراچی میں تین مسلم مکاتب فکر کے مولانا حضرات نے اعلان کر دیا کہ مساجد پر لاک ڈاؤن کا اطلاق نہیں ہوگا، نماز باجماعت اور جمعہ ادا کیا جائے گا۔ رمضان المبارک میں تراویح بھی ہوں گی اور مساجد میں اعتکاف بھی۔ اخبار نویس نے سوال کیا کہ سعودی عرب میں نماز تراویح و اعتکاف کیلئے حکومت نے اعلان کیا ہے کہ یہ گھروں پر ادا کریں۔ مولانا نے جو جواب دیا وہ فرقہ پرستی کے زہر سے بھرا ہوا تھا کیسی بدقسمتی ہے کہ ایک مکتب فکر کے مفتی اعظم کہلانے والی شخصیت اس طرح کی تلخ اور خلاف اسلام ووحدت بات کرے۔ اس پر ستم یہ ہے کہ جب باشعور لوگ اعتراضات کرتے اور سوالات اُٹھاتے ہیں تو ان پر ملحد ہونے کی پھبتی کس دی جاتی ہے۔خدا لگتی بات یہ ہے کہ جزوی لاک ڈائون جو 30اپریل تک جاری رہے گا چوں چوں کا مربہ ہے۔ مسائل ومشکلات سے کسی کو انکار نہیں لیکن جزوی لاک ڈائون کی شرائط سے بندھی سہولیات (جن کاروبار کو کھولنے کی اجازت دی گئی) پر غور کیجئے، آپ ہنس سکیں گے نارو سکیں گے۔ تعمیرات کے شعبے کو کام کرنے کی اجازت دی گئی ہے لیکن سیمنٹ، سریا، ریت، بجری فروخت کرنے کی سہولت نہیں دی گئی۔ درزی دکانیں کھولیں گے کپڑے کی دکانیں بند ہوں گی۔ حجام کی دکانیں کھولنے کی اجازت دی گئی ہے کیا پاکستان میں حجام کی دکانیں حفظان صحت کے اصولوں کے تحت قائم اور کام کرتی ہیں؟ طرفہ تماشا یہ ہے کہ دو دن قبل سندھ کے دو بڑے شہروں حیدر آباد اور میرپور خاص میں ایم کیو ایم، تحریک انصاف اور سندھ گرینڈ الائنس کی طرف سے باقاعدہ اعلانات کے بعد دونوں شہروں میں کچھ کاروبار کھلے، میرپور خاص میں دکانیں کھولنے والوں اور پولیس کے درمیان تصادم بھی ہوا۔ اچھا کوئی ارسطو یہ سمجھا دے کہ جب ذرائع آمد ورفت شہری حدود کے اندر ہی بند ہو ں گے کہ جن کاروبار کی اجازت ہے ان کے مالکان اور ملازمین گھروں سے کاروبار کی جگہ پر کیسے پہنچیں گے۔ تعمیراتی سیکٹر میں کام ہوگا لیبر کیسے پہنچے گی مزدوری والے مقام پر پبلک ٹرانسپورٹ تو بند ہے۔ سوالات اور بھی ہیں مگر بے فائدہ کیونکہ سنجیدہ جواب کی بجائے بھاشن سننے کو ملتا ہے۔ غدار قرار نہ دیا جاؤں تو عرض کروں، پڑوس کے دو ملکوں ایران اور بھارت میں غربت پاکستان سے کہیں زیادہ ہے لیکن ان دونوں ممالک کی قیادت نے حکمران اور بالادست طبقات کے بڑے کاروبار کیساتھ چند چھوٹے موٹے کاروباروں کو کھولنے کی سہولت نہیں دی بلکہ اپنے لوگوں، اجتماعی مفادات اور مستقبل کو پیش نظر رکھا۔ ہم بات بات پر ترکی کی مثال دیتے ہیں، ذرا ترکی میں وباء سے نمٹنے کیلئے حکومت کی جانب سے اُٹھائے گئے اقدامات کا جائزہ تو لیجئے پھر سوچئے آپ کہاں کھڑے ہیں۔ آپ کے فیصلوں میں سنجیدگی کتنی ہے اور خودنمائی وخودسری اور ”دوسرے” معاملات کتنے؟ مکرر عرض ہے لاک ڈاؤن کرنا تو ہے عالمی ادارہ صحت کی پالیسی کے مطابق کیجئے ورنہ ڈرامہ بند کریں اور صاف سیدھے انداز میں لوگوں کو مرنے دیں تاکہ آپ کی مشکل آسان ہو۔

مزید پڑھیں:  ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کی حکمرانی