اومی کرون پاکستان میں پھیل گیا!

کورونا وائرس کا نیا ویرینٹ ”اومی کرون” پاکستان کے شہری علاقوں میں پھیل چکا ہے، دیہی آبادی کی نسبت شہری آبادی کے لوگ اومی کرون سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔ نزلہ زکام ، بخار،گلہ خراب، کھانسی، متلی ، کمزوری اور سینے کے درد میں ہر دوسرا شخص مبتلا دکھائی دیتا ہے، طبی ماہرین کا خیال ہے کہ اگرچہ اکثر لوگ اب کورونا ٹیسٹ کروانے پر توجہ نہیں دے رہے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ اومی کرون سے متاثر ہو چکے ہیں کیونکہ لوگ جو علامات بتا رہے ہیں وہ اومی کرون کی ہی ہیں۔ اومی کرون چونکہ کورونا کی پہلی اقسام کی طرح خطرناک یا مہلک نہیں ہے اس لئے اکثر لوگ اسے موسمی بخار سمجھ رہے ہیں۔
اومی کرون کے متاثرین سامنے آنے کے بعد حکومت نے طبی ماہرین سے رائے لی ہے کہ جونہی جنوبی افریقہ میں اومی کرون کا ظہور ہوا تو احتیاطی تدابیر اختیار کرتے ہوئے دیگر ممالک بالخصوص جنوبی افریقہ سے آنے والے مسافروں کا طبی معائنہ کیا گیا اور مشتبہ مسافروں کو قرنطینہ کیا گیا لیکن اس کے باوجود اومی کرون پورے پاکستان میں کیسے پھیل گیا؟
طبی ماہرین نے اس کے جواب میں کہا ہے کہ اگرچہ حکومت نے زمینی راستے کے ذریعے اومی کرون کے پھیلنے کا سدباب کر لیا تھا مگر دیگر ممالک سے آنے والی ہواؤں کے ذریعے اومی کرون پھیل رہا ہے، طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ ہوا فضا میں سینکڑوں کلو میٹر دور تک سفر کرتی ہے اور اکثر ممالک میں کورونا کے نئے ویرینٹ پھیلنے کا ذریعہ ہوا بن بنی ہے جس پر قابو پانا آسان نہیں ہے۔
تاہم طبی ماہرین نے تسلی دیتے ہوئے کہا ہے کہ جب کسی شخص کو جسم میں درد، نزلہ زکام، گلہ خراب، یا بخار کی شکایت ہو تو پریشان ہونے کی بجائے فوری ڈاکٹر سے رجوع کرے اور معمول کی ادویات استعمال کرے، ادویات کی اضافی یا ہیوی ڈوز لینے سے گریز کریں، کیونکہ انسانی جسم ہیوی ڈوز کا متحمل نہیں ہو سکتا ہے اس کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ آئندہ کچھ دنوں تک کوئی بھی دوا اثر نہیں کرتی ہے۔ ادویات پر زور دینے کی بجائے مناسب خوراک لیں اور جس قدر ممکن ہو آرام کریں۔ اگر آپ اومی کرون کی علامات ظاہر ہونے کے باوجود آرام نہیں کرتے ہیں تو آپ کی بیماری دو دن میں ٹھیک ہونے کی بجائے ایک ہفتہ تک جا سکتی ہے۔
یہ بات ذہن نشین کر لیں کہ اومی کرون کورونا کی پہلی لہر کی نسبت مہلک نہیں ہے آپ اسے معمول کا بخار بھی کہہ سکتے ہیں اس دوران اگر آپ نے بیماری کو اپنے اوپر سوار کر لیا تو آپ کی قوت مدافعت کم ہو سکتی ہے جب آپ کی قوت مدافعت کم ہو جائے گی تو وہ تکلیف میں اضافے کا باعث بن سکتی ہے۔ اومی کرون کے متاثرین میں کافی حد تک کمزروی محسوس کی گئی ہے جس کے بعد اکثر مریض ہلکان ہو جاتے ہیں اور سمجھنے لگتے ہیں کہ انہیں سخت قسم کا کورونا لاحق ہو گیا ہے ایسا نہیں ہے جب انسانی جسم کمزوری کا شکار ہوتا ہے تو اسے روٹین پر آنے کیلئے کم از کم ایک ہفتہ درکار ہوتا ہے، اگر اس کمزروی کے بعد آپ اچھی غذا کا استعمال نہیں کرتے ہیں تو کمزروی کیلئے ازالے کیلئے دو ہفتے بھی لگ سکتے ہیں۔ ان پھلوں کا استعمال جن میں ترشی کم ہو اور یخنی کمزروی کے خاتمے میں معاون ثابت ہو سکتی ہے۔ سو اومی کرون سے خواہ مخواہ ڈرنے اور پابندیاں عائد کرنے کی بجائے اسے سمجھنے کی کوشش کریں۔
اس کے برعکس دیکھا جائے تو میڈیا پر بعض حلقے اومی کرون کا خوف پھیلانے میں مصروف ہیں اس خوف کا منفی اثر یہ نکلتا ہے کہ حکومت کورونا کی پابندیاں عائد کر دیتی ہے جس سے ہر شعبہ زندگی متاثر ہوتا ہے۔ نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر نے اومی کرون کے خطرات کے پیش نظر 20 سے 30 جنوری تک کیلئے نئی پابندیاں عائد کر دی ہیں، 27 جنوری کو صورتحال کا جائزہ لے کر فیصلہ کیا جائے گا کہ پابندیاں برقرار رکھنی ہیں یا انہیں ختم کر دینا چاہئے۔
کیسز کی دس فیصد سے زائد شرح والے علاقوں میں ان ڈور تقریبات پر پابندی عائد کی گئی ہے، بارہ سال سے کم عمر طلباء کیلئے پچاس فیصد حاضری یعنی ایک دن چھوڑ کر اسکول جانا ہو گا جبکہ بارہ سال سے زائد عمر کے بچوں کے مکمل ویکسینیٹڈ ہونے کی صورت میں سو فیصد حاضری کی اجادت دی گئی ہے۔
تعلیمی اداروں کیلئے کورونا کافی مہلک ثابت ہوا ہے کیونکہ گزشتہ دو سال تعلیمی ادارے روٹین کے مطابق نہیں کھلے ہیں، ان سالوں میں تعلیمی نقصان کا ازالہ نہیں کیا جا سکے گا۔ گزشتہ دو سالوں میں کاروباری طبقے کا جو نقصان ہوا ہے اس کی تلافی بھی ناممکن ہے کیونکہ کئی پرانے تاجر اپنا کاروبار ختم کرنے پر مجبور ہوئے، ان حالات کو پیش نظر رکھ کر ہمیں آئندہ کا لائحہ عمل طے کرنا ہو گا۔
ہم سمجھتے ہیں پاکستان سخت پابندیوں کا متحمل نہیں ہو سکتا اس لئے ایسا راستہ اختیار کرنے کی ضرورت ہے کہ عوام وبا سے بھی محفوظ رہیں اور نظام زندگی بھی متاثر نہ ہو۔ خوش آئند ہے کہ حکومت نے کورونا کی حالیہ لہر کے بعد نرم پابندیوں کا اعلان کیا ہے، یہ بات حکومت اور عوامی سطح پر سمجھنے کی ضرورت ہے کہ آنے دور کورونا کا دور ہو گا کبھی اس میں شدت آئے گی اورکبھی کم ہو جائے گا، ایسی صورتحال میں وہی ممالک کامیاب ٹھہریں گے جو کورونا کے ساتھ زندگی گزاریں گے، سواب ہمارے ہاں بھی یہ طے ہو جانا چاہئے کہ کورونا کے ہوتے ہی نظام زندگی رواں رہے گا۔

مزید پڑھیں:  رموز مملکت خویش خسروان دانند