”اب بال طالبان کی کورٹ میں ہے”

اس وقت سب کے ذہنوں میں یہ سوالات گردش کر رہے ہیں کہ افغانستان میں شدید انسانی بحران کے باوجود کیوں ساری دنیا خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ امریکی بینکوں میں افغانستان کے9ارب ڈالر کے فنڈز کو کیوں امریکہ غیر منجمد نہیں کرنے دے رہا تاکہ افغانستان میں بھوک و افلاس سے لڑتی ہوئی عوام کا مداوا کیا جاسکے۔ کیا امریکی حکومت کا دل اس قدر سخت ہے کہ انہیں انسانی المیے کا احساس نہیں ؟اگر طالبان حکومت ایک بڑی رکاوٹ ہے تو ان افغانوں کی مدد کیسے کی جائے جو ایک وقت کے کھانے کے لئے اپنے بچے بیچنے پر بھی مجبور ہیں ؟حالات کا جائزہ لیا جائے تو امریکہ نے اپنے مفادات کو مدنظر رکھ کر ہی افغانستان کے فنڈز منجمد کئے ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ طالبان نے حال ہی میں”المنصوری”نام سے خودکش بمبار کا ایک اسکواڈ اپنی فوج میں شامل کرکے انہیں سرحدوں پر تعینات کیا ہے۔ جو انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں میں شامل ہے۔ خودکش حملے تاریخی طور پر افواج میں روایتی جنگوں میں استعمال کے لئے ایک مہلک ہتھیار سمجھا جاتا تھا چنانچہ دوسری جنگ عظیم کے بعد کسی ملک کی فوج میں خودکش حملہ آور شامل نہیں کئے گئے۔ آخری مرتبہ چین اور چاپان کی جانب سے اپنی افواج میں خودکش حملہ آوروں کا اسکواڈ جنگ عظیم دوئم کے دوران شامل کیا گیا تھا۔ جاپان کے جنرل توجو نے اس سلسلے میں ہوا بازوں کا ایک اسکواڈ تیار کیا تھا جسے ”کامی کازے”کہا جاتا تھا۔ ان کا یہ کام ہوتا تھا کہ اپنے جنگی طیارے کو امریکی بحری جہازوں سے ٹکرا کر اسے تباہ کرنا تھا۔ انہی کامی کازے حملہ آوروں کی وجہ سے جاپان کو پرل ہاربر حملے میں بڑی کامیابی حاصل ہوئی تھی ۔ اسی طرح چین میں بھی ما زے تنگ کی کمیونسٹ آرمی جاپانی فوج پر خودکش حملے کرکے جاپان کو نقصان پہنچاتی رہی۔ لیکن اقوامِ متحدہ کے قیام کے بعد جب انسانی حقوق کا یونیورسل ڈیکلریشن منظور ہوا تب سے تمام ملکوں نے اسے ترک کردیا۔ لیکن1980 اور1987کے درمیان جب ایران اور عراق کی جنگ ہوئی تو اس مہلک ہتھیار کا استعمال پھر سے کیا گیا۔ ایران نے 14سالہ بچوں کا اسکواڈ تیار کرکے اسے ”کاروان کربلا”کا نام دیا جن کا کام یہ ہوتا تھا کہ وہ عراقی سرحد پر بچھائی گئی بارودی سرنگوں پر چل کر اسے صاف کرتے تھے تاکہ ایرانی فوج کو عراق پر حملہ کرنے میں آسانی ہو۔ اسی ٹرینڈ کو بعد میں ایرانی حمایت یافتہ حزب اللہ نے لبنان میں امریکی اور اسرائیلی افواج کے خلاف بھی فالو کیا اور یوں یہ باقاعدہ دہشت گردی میں استعمال ہونے والا ایک بڑا آلہ بن کر القاعدہ’ داعش’ الشباب’ بوکو حرام اور طالبان نے اپنا لیا۔ اس کے علاوہ انہوں نے حکومت قائم کرنے کے بعد اب تک لڑکیوں کے اسکولوں کو کھولنے کے لئے خاطر خواہ اقدامات نہیں اٹھائے۔ ان کا عذر یہ تھا کہ اسکول کھولنے میں وقت لگے گا جبکہ اس کے برعکس لڑکوں کے اسکول کھولنے میں انہیں کوئی وقت نہیں لگا۔ دنیا کو ان کی نیت پر شک کا موقع تب ملا جب انہوں نے ایک نیا حکمنامہ جاری کیا جس میں خواتین کے لئے کسی محرم کے بغیر سفر کرنے پر پابندی لگادی گئی۔ تو ان تمام اقدامات سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ طالبان حکومت نے خود دنیا کو اپنی نیک نیتی کو شک کی نگاہ سے دیکھنے کا موقع دیا ہے کیونکہ حکومت میں آنے کے بعد ایک ایسے وقت میں ایک غیر انسانی عمل کو اپنی فوج کا حصہ بنانا اور ایسے اقدامات اٹھانا جو بین الاقوامی انسانی حقوق کی خلاف ورزی میں شامل ہیں جب پوری دنیا ان کے ہر ایک قدم پر نظر رکھی ہوئی ہے کہ طالبان بین الاقوامی قوانین اور انسانی حقوق کو کس قدر اہمیت دیتے ہیں واضح کرتا ہے کہ طالبان دنیا سے کئے گئے وعدوں کو پورا کرنے میں عدم دلچسپی رکھتے ہیں۔ تو پھر ایسے میں وہ کس طرح دنیا سے امید کرسکتے ہیں کہ کسی بھی بحران میں دنیا ان کے ساتھ کھڑی ہوسکتی ہے۔
طالبان حکومت نے اس کے علاوہ اور بھی کئی ایسے اقدامات اٹھائے ہیں جس کی وجہ سے امریکہ اور باقی دنیا انہیں ریکگنیشن اور مالی تعاون سے کترا رہی ہے۔ امریکہ سے دوحہ معاہدے میں طالبان نے اس بات کا عہد کیا تھا کہ وہ کسی بھی غیر ملکی دہشت گرد کو اپنی سرزمین کا استعمال نہیں کرنے دیں گے جبکہ حکومت قائم کرنے کے بعد ان کی سب سے پہلی خلاف ورزی ہی بین الاقوامی دہشت گرد تنظیم ٹی ٹی پی کو اپنی سرزمین پر پناہ دینا تھی۔ اب ظاہر ہے کہ امریکہ یہ سوچنے پر مجبور ہوگا کہ وہ ملک جس کے ساتھ ان کے اچھے مراسم رہے ہیں اور جس کا وزیراعظم نا صرف پوری دنیا کے ہر ایک پلیٹ فارم پر افغانستان کی مدد کے لئے اپیلیں کر رہا ہے بلکہ اپنی عوام کا پیٹ کاٹ کاٹ کر افغانستان ٹرکیں بھر کر امداد بھیج رہا ہے اگر اس ملک کے ساتھ بھی ان کی کشیدگی جاری ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ طالبان حکومت اپنے رویے تبدیل کرنے پر راضی نہیں ہے اور کل کو یہ امریکی مفادات کو بھی چیلنج کرسکتے ہیں۔ جس کی مثال یہ ہے کہ حکومت قائم کرنے کے بعد پاکستان کے ایک نجی ٹی وی کے ایک صحافی کو انٹرویو دیتے ہوئے افغان طالبان کے ترجمان زبیح اللہ مجاہد نے یہ کہا تھا کہ کہ”افغانستان میں جو داعش ہے وہ جعلی ہے ۔

مزید پڑھیں:  ڈیٹا چوری اور نادرا؟